226

میاں ساب کا چالان۔

میاں ساب نے لندن میں حسب عادت دکان کے سامنے گاڑی پارک کردی تھی۔

ابھی ہم گاڑی پارک کر کے پلٹے ہی تھے کہ ایک نیلی آنکھوں اور پیلے دانتوں والی پولیس والی میاں ساب کے سامنے آگئی۔ میاں ساب کا منہ دیکھنے والا تھا۔ بولے کل ثوم توں ذرا پارک میں جاکر بیٹھ میں ذرا اس سے امپوٹنٹ گل بات کرلوں۔ دیکھ اتنے دن بعد تو کوئی انٹرویو لینے آیا ہے۔

پھر اپنے سر کے چار بالوں کو سیٹ کرتے ہوئے بولے۔

بیوٹی فل لیڈی، واٹ ڈو یو وانٹ ؟

پولیس والی بولی۔

یور ٹکٹ سر۔

ٹکٹ۔ میاں ساب کی بھانچھیں کھل گئیں ۔

اونو بیوٹی فل لیڈی ۔ وی میٹ فسٹ ٹائم۔ سو آئی کانٹ گو فار مووی۔

واٹ ؟ گوری کے منہ پے پتہ نہیں ہوائیاں تھیں یا گالیاں۔

میں منہ دبا کے ہنس رہی تھی ۔

سر    دس از یور چالان ٹکٹ ۔ یو پارکڈ ایٹ رانگ پلیس۔

او میاں ساب آپ کا چالان ہوا ہے ہر  وخت ٹھرکی ذہن سے نا سوچا کریں ۔

میاں ساب کا منہ لٹک گیا ۔

کل ثوم یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے ۔میاں ساب جھنجھلا کر بولے ۔

میری وجہ سے ؟ میں بھی دھاڑی ۔

اگر آپ لوگوں نے میری بیماری کا بہانہ نا کیا ہوتا تو آج آپ بھی جیل میں ہوتے۔

میاں ساب کا موڈ سخت آف ہوچکا تھا ۔

میاں ساب یہ لندن ہے پاکستان نہیں کہ کہیں بھی گاڑی پارک کردیں ۔

کل ثوم سچی میں پاکستان بہت یاد آرہا ہے۔

سوچ رہا ہوں مکے چلا جاوٗں۔

شاہ سلیمان سے کوئی سفارش وغیرہ کراوٗں۔

بندہ بڑھاپا تو آرام سے گزارے۔

یہاں تو کل ثوم گاڑی بھی خود ہی چلانی پڑتی ہے۔

میاں ساب کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ انہوں نے میرے ڈوپٹے سے ناک پونچھی۔ مجھے شدید غصہ آیا۔

بندہ تین دفعہ وزیراعظم بھی بن جائے تو حرکتیں وہی رہتی ہیں۔

میں نے کہا میاں صاب آپ نے میرا ڈوپٹہ گندہ کر دیا۔

میاں ساب بولے کل ثوم اب توں بھی یہی بولے گی کل ثوم ؟

امران تو بولتا تھا اب توں بھی بولے گی ؟

میں نے کہا میاں ساب زیادہ جذباتی نا ہوا کریں۔

ہم ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر چائے کا انتظار کر رہے تھے۔

ایک پاکستانی آیا اور بولا میاں ساب تمہارے شہر میں بچے سڑکوں پے پیدا ہورہے ہیں ۔

میاں ساب کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔

بولے۔ شباز نے اتنی اچھی روڈیں بنائی ہیں کہ مائیں بچہ پیدا کرنے کے لئے سڑک پے آتی ہیں ۔

یہی تو وژن ہے۔

وہ پاکستانی لعنت دکھاتا ہوا چالا گیا۔

میں نے کہا میاں ساب شکر کریں آپ پاکستان میں نہیں ہیں ورنہ اس بندے نے گریبان سے پکڑ کر اٹھا لینا تھا۔

میاں ساب بولے او جھلی اس میں ایسی کون سی بات ہے اگر بچے سڑک پے پیدا ہوگئے تو۔ بچے ہیں کہیں بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
بھئی ان کا دل کر رہا ہوگا کہ وہ پیدا ہوتے ہیں شباز کی بنائی ہوئی سڑک کو چومے۔

اس جاہل عوام کو تو امران ہی ٹھیک کرے گا۔

جس نے روڈیں بھی نہیں بنوائیں کہ وہاں بچے پیدا ہوسکیں۔
ہنہہہ اس قوم کے لئے کل ثوم ہم نے کتنی تکلیفیں اٹھائیں ہیں لیکن اس کو قدر ہی نہیں ہماری۔

ایک تو امرا ن نے ادھر ہر کوئی بڈتمیز بنادیا ہے کہ جہاں جاوٗ وہاں سے آواز آتی ہے ۔

مجھے کیوں نکالا ؟

میں نے سرپکڑ لیا۔
دل میں سوچا میاں ساب امران نے سڑکیں نہیں بنائیں لیکن ہسپتال بنادیئے ہیں اور بچے آخری خبریں آنے تک ہسپتال میں ہی پیدا ہورہے ہیں ۔

بس یہ بھی وژن کا فرق ہے۔ (منقول)
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
span.s2 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; direction: ltr; unicode-bidi: embed}
span.s3 {direction: ltr; unicode-bidi: embed}

اپنا تبصرہ بھیجیں