298

کشمیر میں انڈین آرمی کا کنٹرول کرنے کا غیر انسانی طریقہ

کشمیر میں گزشتہ 30 برس سے علحیدگی کی تحریک جاری ہے، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں فوج اور سکیورٹی فورسز گزشتہ 30 سال سے مبینہ طور پر علیحدگی کی تحریک کو دبانے کے لیے ہزاروں کشمیریوں پر جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانے کے تمام حربے استعمال کرتی رہی ہیں جن میں ‘واٹر بورڈنگ’ اور جسم کے نازک اعضا پر کرنٹ لگانا شامل ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے یہ رپورٹ ‘ٹارچر: انڈین سٹیٹ انسٹرومنٹ آف کنٹرول ان انڈین ایڈمنسٹرڈ جموں اینڈ کشمیر’ کے عنوان سے جاری کی ہے۔

اس مشترکہ رپورٹ میں مبینہ تشدد اور ایذا رسانی کے سینکڑوں واقعات کو قلم بند کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کشمیر میں پیش آنے والے ظلم اور بربریت کے واقعات پر بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کرائی جائیں۔ رپورٹ میں 432 واقعات کی تفصیلی تحقیقات کی بنیاد پر اس متنازع خطے میں تشدد کے رجحان، طریقہ کار، تشدد کا نشانہ بننے والے قیدیوں، فوجی عقوبت خانوں اور تشدد کے عام عوام پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کے والدین کی تنظیم (ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیئرڈ پرسنز) اور جموں اور کشمیر کی سول سوسائٹی کے اتحاد (جموں اینڈ کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی) نے جاری کی ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ کشمیر میں انڈین فوج عقوبت رسانی کے وہ تمام حربے استعمال کر رہی ہے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیے جاتے ہیں۔ اب اقوام متحدہ کے علم میں یہ سب کچھ ہے جو انڈین آرمی کشمیر میں نہتے مسلمانوں کے ساتھ کر غیر انسانی سلوک کر رہی ہے۔

اس رپورٹ میں 432 قیدیوں پر مبینہ تشدد کے واقعات پر تحقیق کی گئی۔ اور رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان میں سے ایسے چالیس کیس سامنے آئے جن میں قیدی انتہائی جسمانی تشدد کے باعث ہلاک ہو گئے۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 432 میں سے 190 قیدی ایسے تھے جن کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق 326 افراد کو مبینہ تشدد کے دوران ڈنڈوں، لوہے کے راڈوں، سریوں اور چمڑے کے ہنٹروں اور بیلٹوں سے مارا پیٹا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ان میں 169 بدقسمت ایسے تھے جن کو ‘رولر ٹارچر’ کا نشانہ بنایا گیا اور واٹر بورڈنگ کا حربہ 24 قیدیوں پر آزمایا گیا۔

مبینہ طور پر قیدیوں کے سروں کو پانی میں ڈبو کر تشدد کرنے کے 101 واقعات سامنے آئے، جسم کے نازک اعضا پر بجلی کا کرنٹ لگا کر 231 پر تشدد کیا گیا اور 121 قیدیوں کو سر کے بل چھت سے لٹکایا گیا۔ رپورٹ میں الزام ہے کہ گیارہ کو طویل عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، اکیس قیدیوں کو سونے نہیں دیا گیا اور 238 کو ریپ اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سکیورٹی فورسز کے حراستی مراکز میں مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والے لوگوں کی اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ 432 قیدی جن کا رپورٹ میں تفصیل سے ذکر ہے ان میں 301 خواتین، طلبہ، کم عمر بچے، سیاسی اور انسانی حقوی کے کارکن اور صحافی شامل تھے۔ تشدد کے ان انفرادی واقعات کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر شہریوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کے بھی طریقے بنا لیے گئے جن میں پوری پوری آبادیوں کا محاصرہ کر کے وہاں تلاشی کے بہانے گھروں میں گھس کر لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور خواتین کو ریپ کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر ہی نہیں آتے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں فوج اور سکیورٹی فورسز کو خصوصی قوانین کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی کے ایک بھی واقعہ میں ملوث کسی فوجی اور سرکاری اہلکار کو سزا نہیں دی جا سکی ہے۔ رپورٹ میں انڈیا کے تمام آئینی اداروں عدلیہ، مقننہ اور فوج کو انسانی حقوق کی پامالی میں برابر کا ذمہ دار ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تشدد کو جموں اور کشمیر میں باقاعدہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت باقاعدہ منظم حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خلیج گوانتاناموبے اور عراق کے ابو غریب قید خانے میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ایسے واقعات کی پرزور مذمت اور توجہ کے باوجود انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کوئی بات نہیں کی گئی اور یہ بین الاقوامی نظروں سے اوجھل رہی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیموں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ تشدد اور بربریت کا یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر اب بھی جاری ہے۔ اس بارے میں رپورٹ میں ایک واقع بھی درج کیا گیا ہے جس میں اس سال مارچ کی انیس تاریخ کو مبینہ طور پر ایک مقامی سکول کے انتیس سالہ پرنسپل رضوان کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیے جانے کے بعد کشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ کے کارگو کیمپ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تین دن کے بعد پولیس نے رضوان کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا جس میں الزام لگایا کہ رضوان پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مارا گیا ہے۔

رپورٹ میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 1947 کے بعد مخالفین کی آواز کو تشدد سے دبانے کی تاریخ پر بھی نظر ڈالی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ 1990 کے بعد تشدد کے استعمال میں بے انتہا اضافہ کر دیا گیا۔ انسانی حقوق اور تشدد کے استعمال کی گزشتہ تیس برس میں تاریخ کو مختلف ادوار میں باٹنتے ہوئے رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ فوج اور سکیورٹی فورسز کے علاوہ اخوان اور ویلج ڈیفینس کمیٹیز کو بھی وقتاً فوقتاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ کشمیر میں شہدا کے جنازے بھی بھت زیادہ سیکیورٹی رسک ہیں۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس کی خفیہ شاخ نے حکومت سے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے جنازوں میں بھاری تعداد میں لوگوں کی شرکت سے نوجوان مسلح تشدد کی طرف راغب ہو جاتے ہیں لہٰذا اگر کوئی شدت پسند مارا جائے تو اس کے جنازے میں عوام کی شرکت پر پابندی عائد کی جائے۔

گو یہ ابھی باقاعدہ سرکاری پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی اسکے بارے میں کوئی اعلان ہوا ہے تاہم اس حوالے سے کشمیر میں سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ جنوبی کشمیر کے اضلاع پلوامہ کولگام، اننت ناگ اور شوپیاں میں شدت پسندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہاں رہنے والے اکثر نوجوانوں کا کہنا ہے کہ حکومت ہند دراصل اُس حقیقت سے ڈرتی ہے جو ان جنازوں کے دوران عیاں ہو جاتی ہے۔ شدت پسندوں کے جنازوں میں شرکت کے لیے لاکھوں لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔اور وہ آزادی کے حق میں اور انڈیا کے خلاف نعرے بازی کرتے ہیں۔ یہ اجتماعی جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی سب تو انڈیا دیکھنا یا سننا نہیں چاہتا۔’

خواتین دور دور سے سوگواروں سے ملنے آتی ہیں۔ ‘کشمیرمیں اب جنازے بھی انڈیا کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے۔’ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا نہ صرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی امور میں حکومت کی مداخلت ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی انجمنوں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائٹیز کے ترجمان خرم پرویز کہتے ہیں: ‘قانونی طور تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کسی جنازے پر پابندی عائد کردیں لیکن پھر بھی یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا نے محمد مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی کے بعد جیل میں دفن کیا اور لاشیں لواحقین کے سپرد نہیں کیں۔ امن و قانون کے نام پر یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔’

حکام کا کہنا ہے کہ جنازے میں شامل ہونے والے مشتعل ہو کر بندوق اٹھا لیتے ہیں، خرم مزید کہتے ہیں کہ کشمیر میں مسلح سرگرمی میں اضافہ کی بنیادی وجہ انڈین فورسز اور حکام کی زیادتیاں ہیں۔ ‘اگر حکومت کو لگتا ہے کہ شدت پسند کے جنازے کو محدود کرکے حالات ٹھیک ہوں گے تو یہ سب سے بڑا مغالطہ ہے۔

اور یہ کوئی پالیسی نہیں محض ایک تجویز ہے لیکن تجویز کے پیچھے دلیل ہے۔ شدت پسند کی لاش کو ایک علامت بنایا جاتا ہے، لاکھوں لوگ نعرے بازی کرتے ہیں اور اس جذباتی ماحول میں چند نوجوان بندوق اُٹھانے کی ٹھان لیتے ہیں۔ تشدد کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ اسی سب کو روکنے کے لیے یہ مشورہ دیا گیا ہے۔’ خیال رہے کہ نو جولائی سنہ 2016 جب مقبول مسلح کمانڈر برہان وانی ایک تصادم میں دو ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے تو کشمیر کے اطراف سے لاکھوں لوگ ان کے آبائی قصبہ ترال کی طرف چل پڑے لیکن انھیں جگہ جگہ روکا گیا اور ہجوم نے مزاحمت کی تو ان پر گولیاں چلائی گئیں، جس کی وجہ سے درجنوں لوگ مارے گئے۔ اسی کاروائی کے ردعمل میں ایک طویل احتجاجی تحریک چھڑ گئی جس کے دوران 100 سے زیادہ نوجوان مارے گئے اور 15 ہزار زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں اکثریت ان کی تھی جو چھروں کے شکار ہوئے۔ چھروں کی وجہ سے سینکڑوں نوجوانوں کی آنکھیں متاثر ہوئیں اور درجنوں ایسے ہیں جو بینائی سے محروم ہو گئے۔ اتنا زیادہ ظلم انڈین فوسز کر رہی ہے اور اقوامِ متحدہ آنکھیں بند کر کےسب کچھ دیکھ رہی ہے۔کشمیر یوں کو حق خودارادیت دے دینا چاہیے اور وہ آزادی سے اپنی زندگی بسر کر سکیں۔اور اسکا سلیوشن بھی یہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں