128

کیا ٹیکنالوجی پر ہمارا بڑھتا انحصار محفوظ بھی ہے؟

ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہمیں جدید ایجادات کا اس قدر عادی بنا دیا ہے کہ ہم سب ان آلات کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایئر کنڈیشنر، فریج، واشنگ مشین، کمپیوٹر، جدید موٹر کاروں اور دیگر برقی آلات کو تو چھوڑیے صرف موبائل فون کی مثال ہی لے لیجئے جو ہم سب کی زندگی کا ایسا ناگزیر حصہ بن چکا ہے کہ اگر ہمارا موبائل فون چوری ہو جائے یا کہیں کھو جائے تو یوں لگتا ہے کہ ہم پوری دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ ہم موبائل فون پر اس قدر انحصار کرنے لگے ہیں کہ اگر اس کی بیٹری جواب دے جائے تو ہمارا اپنے گھر والوں اور قریبی عزیزوں سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے کیونکہ اب کسی ایسی ڈائری میں فون نمبر نوٹ کرنے کا رواج نہیں رہا جو بوقت ضرورت کام آسکے۔ مجھے سب سے زیادہ حیرانی ڈیڑھ دو سال کے ان بچوں کو دیکھ کر ہوتی ہے جو ابھی چلنا اور بولنا بھی نہیں سیکھ پاتے لیکن موبائل فون کے استعمال اور اس پر اپنی پسند کے کارٹون دیکھنے اور گیمز کھیلنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور بہت سے بچوں کی یہ عادت اس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ وہ موبائل فون، ٹیبلٹ یا آئی پیڈ پر اپنی مرضی کی ویڈیو دیکھے بغیر کھانا تک نہیں کھاتے۔ موبائل فون کی وجہ سے ہماری زندگی اب فیس بک، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور واٹس ایپ وغیرہ کی اسیر ہو کر رہ گئی ہے اور ہم روزانہ اپنی زندگی کے کئی ایسے گھنٹے ان پر صرف کرتے ہیں جو پہلے اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ گزارتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میں بہت سی آسانیاں اور سہولتوں کی راہ ہموار کی ہے لیکن یہی ٹیکنالوجی ہمارے لیے بہت سی پیچیدگیوں اور مسائل کا باعث بھی ہے۔ فیس بک پر نقلی آئی ڈی بنا کر فراڈ کی کوشش کرنا، لڑکی بن کر لڑکوں کو ورغلانا اور اپنے جال میں پھنسانا اب معمول کا حصہ بن چکا ہے اور سائبر کرائم کا نیٹ ورک دن بدن پھیلتا چلا جا رہا ہے۔

سائبر کرائم کا نشانہ عام طور پر خواتین اور نوجوانوں (ٹین ایجرز) کو بنایا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو وہ بچے بھی اس طرح کے جرائم کی زد میں آ جاتے ہیں جنہیں والدین نے موبائل فونز یا کمپیوٹرز کے آزادانہ استعمال کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سائبر کرائم کرنے والوں اور ہیکرز کے بڑے منظم گروہ سرگرم عمل ہیں۔ خاص طور پر کمپیوٹر ہیکرز جو کہ (آئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ہوتے ہیں) دنیا کی بڑی بڑی کمپنیز اور سرکاری اداروں کے کمپیوٹر سسٹم تک رسائی حاصل کر کے ان کا ڈیٹا چوری کر لیتے ہیں یا پھر اس کو بلاک کر کے بھاری تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے برطانوی رائل میل کے نیٹ ورک کو روسی ہیکرز نے جزوی طور پر بلاک کر دیا جس کی وجہ سے کئی ہفتوں تک رائل میل کے ذریعے کوئی بھی پارسل بیرون ملک پوسٹ نہیں کیا جا سکا جس کے نتیجے میں کمپنی کو لاکھوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ ہیکرز نے رائل میل سے اوورسیز پوسٹل نیٹ ورک سسٹم کی بحالی کے لیے 80 ملین ڈالر کا تاوان طلب کیا لیکن رائل میل نے اس تاوان کی ادائیگی سے صاف انکار کر دیا اور چند ہی ہفتوں میں انٹرنیشنل پوسٹ کے لیے متبادل نیٹ ورک بنا کر اپنا سسٹم بحال کر لیا مگر اس پر بھی رائل میل کو لاکھوں پاؤنڈ کی رقم خرچ کرنا پڑی۔ بڑی کمپنیاں اور ادارے سائبر کرائم یا رینسم وئیر اٹیک (RANSOMWARE ATTACK) کرنے والوں کو اس لیے تاوان ادا نہیں کرتیں کہ ایک بار ایسا کرنے سے نہ صرف مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ ان کے کمپیوٹر نیٹ ورک کے پھر سے ہیک ہونے کے خطرات پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لندن کی برٹش لائبریری بھی سائبر کرائم کی زد میں آگئی اور اس علمی ادارے کا پورا کمپیوٹر نیٹ ورک مفلوج ہو کر رہ گیا۔ رسیدا رین سم گروپ(RHYSIDA RANSOMEWARE GROUP) نے برٹش لائبریری کا نایاب اور قیمتی ڈیٹا ہی نہیں بلکہ اس کے ملازمین اور ممبرز کی ذاتی معلومات کی تفصیلات بھی چرا لیں اور برطانوی حکومت سے بھاری رقم تاوان کے طور پر طلب کی۔ برٹش لائبریری یونائیٹڈ کنگڈم کے ایک قومی اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں تقریبا 200 ملین کتب، مخطوطات، تصاویر اور نایاب دستاویزات محفوظ ہیں۔ اس ادارے کو دنیا بھر کے محققین ایک قیمتی خزانہ سمجھتے ہیں اور اس خزانے کے نیٹ ورک تک رسائی اور اس میں محفوظ معلومات کی چوری یقینا ایک سنگین اور تشویش ناک جرم ہے۔ تاوان کی عدم ادائیگی پر سائبر کرائم کرنے والے چوری کی گئی معلومات اور دستاویزات کو ڈارک ویب کے ذریعے فروخت کر کے مال بنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ لندن کی برٹش لائبریری اور رائل میل کے علاوہ بھی امریکہ اور یورپ سمیت بہت سے ممالک کے بڑے بڑے مالیاتی اداروں اور محکموں کو ہیکرز اور سائبر کرائم کی وجہ سے بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور بھاری مالی نقصان کے باوجود ان کا نیٹ ورک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکا۔ برٹش لائبریری پر سائبر اٹیک گزشتہ برس اکتوبر میں ہوا تھا جس کے بعد سے ہزاروں محققین اور علم کے متلاشی اس لائبریری کے علمی اور معلوماتی اثاثے سے استفادہ کرنے سے محروم ہیں اور تاحال اس ادارے کی سروسز پوری طرح دستیاب نہیں ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کوئی ایجنسی یا قانون نافذ کرنے والا عالمی ادارہ ان انٹرنیشنل ہیکرز تک نہیں پہنچ سکتا اور جو ادارے ان سائبر کریمینلز کو تاوان کی ادائیگی پر مجبور ہو جاتے ہیں وہ بھی ایسے مجرموں کے انٹرنیشنل نیٹ ورک کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر پاتے۔ آخر تا وان کی خطیر رقم ان مجرموں کے اکاؤنٹ میں کسی نہ کسی طرح تو پہنچتی ہوگی مگر اس کے باوجود ایسے خطرناک افراد یا نیٹ ورکس کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا جس کا مطلب ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک بھی تمام تر وسائل کے باوجود ان مجرموں کے سامنے بے بس ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا سیلاب پوری دنیا کو بہا کر ایک گہرے اور نامعلوم سمندر کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہم جو موبائل فون ہر وقت اپنے ہاتھ میں اٹھائے یا جیب میں چھپائے پھرتے ہیں یہ صرف ہمیں لوگوں سے رابطے کی سہولت ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ ہر وقت ہماری جاسوسی بھی کرتا رہتا ہے۔ ہم جو معلومات اس میں محفوظ کرتے ہیں وہ ایسے ثبوت اور شواہد بن جاتے ہیں جو کسی بھی وقت ہمارے حق یا ہمارے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ ہم اپنے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا موبائل فون پر جن ویب سائٹس کو دیکھتے ہیں یاجن گیمز سے لطف اندوز ہوتے ہیں اس کا پورا ریکارڈ کہیں نہ کہیں محفوظ ہوتا رہتا ہے

مرتب کر رہا ہے گوشوارہ اور کوئی

میں اپنا ہر عمل ترسیل کرتا جا رہا ہوں

ایک زمانہ تھا کہ افراد کی ذاتی معلومات اور ذاتی معاملات صرف اس تک ہی محدود تھے مگر اب جدید ٹیکنالوجی نے کسی بھی چیز کو پرسنل یا ذاتی نہیں رہنے دیا۔ آپ فیس بک یا واٹس ایپ گروپ میں اپنی یا اپنے کسی عزیز کی کوئی تصویر شیئر کرتے ہیں تو دنیا کے کونے کونے میں لوگوں کو اس تصویر تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے اور کوئی بھی شخص آپ کی اس تصویر کو آپ کو بتائے بغیر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے صرف ضرورت کی حد تک استفادہ کرنا ہی زیادہ مناسب ہے۔ خاص طور پر جہاں کہیں ذاتی معلومات یا بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں تو وہاں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ آج کل فراڈ کرنے والوں نے لوگوں کو جھانسا دینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے نئے نئے حربے ایجاد کر رکھے ہیں اس لیے سواری کو اپنے سامان کی خود حفاظت کرنا چاہیے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں مختلف ملکوں کے لیے امیگریشن کے آسان طریقے بتائے جاتے ہیں یا چند ہزار روپے کی انویسٹمنٹ سے ہر مہینے لاکھوں روپے منافع کمانے کے گر سکھائے جاتے ہیں یا مالدار بے سہارا اورخوبصورت خواتین (مطلقہ یا بیوہ) کے رشتوں کے اشتہار اور تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ پہلے یہ سب کچھ اخبارات اور رسالوں میں شائع ہوتا تھا جن کی سرکولیشن بہت محدود ہوا کرتی تھی مگر اب سوشل میڈیا پر ایسے مواد کی تشہیر سے چند دنوں میں یہ سب کچھ لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اور خاص طور سے فیس بک پر انجانے لوگوں کو دوست بنانے میں بھی بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور انہیں جھوٹی سچی کہانیاں اور دکھڑے سنانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ کیا معلوم آپ اپنی جس فیس بک فرینڈ کو انباکس کے ذریعے رجھانے، پٹانے اور گھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ آپ کی منکوحہ کی فیک آئی ڈی ہو اور آپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں اور پھر تاوان ادا کر کے بھی جان بخشی نہ ہو۔ اسی لیے میں نے خبردار کر دیا ہے کہ سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے۔

٭٭٭٭