27

محکمے اور وزارتیں

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی عوامی مسائل کے حل اور سہولتوں کی فراہمی کے لئے مختلف محکمے، ادارے، وزارتیں اور شعبے قائم ہیں جنہیں کرپشن اور بدعنوانی سے محفوظ رکھنے کے لئے بہتر،موثر اور شفاف حکمت عملی بنائی گئی ہے۔ حکومت اور ارباب اختیار کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ان محکموں اوروزارتوں کی تعداد کو کم سے کم رکھا جائے اور ان میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد بھی محدود ہو۔ جن مقاصد کے لئے یہ ادارے اور شعبے بنائے جاتے ہیں اُن کی تکمیل اولین ترجیح ہوتی ہے۔ وزارتیں اور محکمے اپنی کارکردگی سے اپنی افادیت ثابت کرتے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ یعنی ہاؤس آف کامنز میں اس وقت منتخب ارکان کی تعداد 650 ہے اور ان میں وزیروں کی تعداد صرف بائیس(22) ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو حیرانی اور پریشانی میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ جو ملک بیرونی قرضوں اور امداد پر چل رہا ہے وہاں سینکڑوں ایسے ادارے، محکمے اور شعبے قائم ہیں جہاں ملازمین کی غیر ضروری بھرتی نے انہیں سفید ہاتھی بنا دیا ہے۔ ان میں پی آئی ہے، پاکستان سٹیل ملز اور واپڈا کے علاؤہ بھی سینکڑوں ادارے اور ڈپارٹمنٹس ایسے ہیں جن کی کارکردگی اب پوری قوم کے سامنے ہے۔ اس لئے کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت ہے۔ ان سطور میں آج صرف ایک ایسی وزارت اور ایک ایسے محکمے کا ذکر مقصود ہے جن کا تعلق پاکستانی تارکین وطن سے ہے۔ ایک زمانے میں سمندر پار پاکستانیوں کے امور اور افرادی قوت کی وزارت ہوا کرتی تھی جسے 2013ء میں منسٹری آف اوورسیز پاکستانیز اینڈ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا نام دے دیا گیا۔ یعنی اب یہ وزارت ماورائے بحر پاکستانی اور ترقئی انسانی وسائل کہلاتی ہے۔ چوہدری سالک حسین اس کے نئے وفاقی وزیر ہیں۔ ان سے پہلے ضیاالحق کے فرزند اعجاز الحق سے لے کر ڈاکٹر فاروق ستار کے علاؤہ اور بہت سے نامور سیاستدان اس منصب پر فائز رہے لیکن کسی نے بھی کوئی ایسا کارہائے نمایاں سرانجام نہ دیا جس سے اوورسیز پاکستانیوں کا کوئی بھلا ہوا ہو یا اُن کا کوئی مطالبہ پورا کیا گیا ہو۔ بہت سے وزیر مشیر تو ایسے بھی گزرے جنہوں نے اپنے دور حکومت میں کبھی ایک بار بھی اوورسیز پاکستانیون کے کسی اجتماع میں شرکت نہیں کی یا اُن کے کسی نمائندہ وفد سے ملنے کی ضرورت محسوس کی۔ پوری دنیا میں آباد اور کام کاج کی غرض سے مقیم تقریباً ایک کروڑ اوورسیز پاکستانی ہر سال اربوں روپے کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں جس سے پاکستان کی اقتصادی ساکھ کو سہارا ملتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی لاج باقی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود ہر دور میں نہ صرف پاکستانی تارکین وطن کو نظر انداز کیا گیا بلکہ پی آئی اے کی انٹرنیشنل فلائٹس کی بندش اور ہوائی اڈوں پر اوورسیز پاکستانیوں سے بدسلوکی سے اُن کے مسائل مین اضافہ کیا گیا۔

تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی اس روش میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ خیال تھا کہ پی ٹی آئی جسے پاکستانی تارکین وطن کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور حاصل ہے وہ اس معاملے میں کوئی مؤثر حکمت عملی بنائے گی لیکن اس نے بھی وطن سے دور بسنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا۔ اس دور کے وزیر/مشیر زلفی بخاری سے بہت سے پاکستانیوں اور خاص طور پر برطانیہ میں آباد تارکین وطن کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں مگر وہ بھی ویسے ہی وزیر ثابت ہوئے جیسا کہ اُن سے پہلے اس عہدے پر فائز رہنے والے منتخب سیاستدان تھے۔ اوورسیز پاکستانیون کو اس بات پر بہت حیرانی ہوتی ہے کہ جو وزارت اور محکمہ جس مقصد کے لئے بنائے جاتے ہیں وہ اُن مقاصد کی تکمیل کی بجائے باقی سب کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کوئی وزیر اعظم یا وزیر ان اداروں سے ان کی کارکردگی کا حساب نہیں مانگتا۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جس ادارے اور وزارت پر ملک کے خطیر وسائل صرف ہوتے ہیں اس نے قومی فلاح وبہبود کے لئے اب تک کیا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں، حکمرانوں اور افسر شاہی نے مختلف محکموں کو صرف اپنی سہولت اور آسانی کے لئے قائم رکھا ہوا ہے۔ اداروں اور محکموں کی کارکردگی چاہے صفر ہو بلکہ ملک و قوم کے مفاد کے منافی ہو لیکن ان کی وجہ سے سیاستدانوں کی وزارتوں اور بیوروکریسی کا ٹھاٹھ باٹھ ضرور قائم رہتا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے عمران خان کو ملنے والی حمایت اور فنڈنگ پر دوسری سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ اعتراض رہا لیکن انہوں نے شاید ہی اس ضرورت کو محسوس کیا ہو کہ وہ اپنے دور حکومت میں زلفی بخاری سے پوچھتے کہ پاکستانی تارکین وطن کے مطالبات کیا ہیں؟ اور اب تک ان میں سے کن مطالبات کو پورا کیا گیا ہے؟ خاص طور پر وہ پاکستانی تارکین وطن جو مڈل ایسٹ یعنی مشرق وسطیٰ میں محنت مزدوری کرتے اور مشکل حالات میں گزر بسر کرتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وزارت خارجہ کے حکام سے اوورسیز پاکستانیوں کی منسٹری کے ارباب اختیار تک آج تک کسی نے ایسی کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی اور نہ ہی کوئی ایسا نظام تشکیل دیا ہے جس کی وجہ سے محنت مزدوری کے لئے ملک چھوڑنے والوں کو کسی قسم کی کوئی سہولت یا آسانی میسر آئی ہو بلکہ جو لوگ مڈل ایسٹ میں مزدوری کے لئے جاتے ا ور پھر وہاں سے واپس آتے ہیں تو ہوائی اڈے اور امیگریشن کے حکام اور عملہ اُن سے مال بٹورنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اپنے عرب آجروں کے ستائے ہوئے اِن محنت کشوں کے ساتھ وطن واپسی پر حسن سلوک کی بجائے بدسلوکی ایک معمول بن چکا ہے۔ پاکستان میں ایک ادارہ او پی ایف یعنی اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے نام سے قائم ہے۔ یہ بھی پاکستانی تارکین وطن کے امور کی وزارت کا ایک ذیلی محکمہ ہے۔ اس ادارے کا حال بھی پاکستانی کے دیگر محکموں جیسا ہی ہے۔ 1979ء میں امیگریشن آرڈی نینس کے تحت قائم ہونے والا یہ ادارہ اوورسیز پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں کی فلاح وبہبود کا دعویدار ہے لیکن اس میں بھی پاکستانی تارکین وطن کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 1913ء کے ایکٹ کے مطابق یہ ایک غیر منافع بخش پبلک سیکٹر کمپنی ہے جسے ایک 12رکنی بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ اس ادارے کے ملازمین کی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار ہے۔ او پی ایف کے اعلیٰ اور بااختیار عہدوں پر بھی پاکستانی بیوروکریٹس فائز ہیں جنہیں نہ تو اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل اور مشکلات کا اندازہ ہے اور نہ ہی وہ ان کے حل میں کوئی خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو ادارہ اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح وبہبود کے لئے قائم کیا گیا ہو اُسے چلانے اور فیصلے کا اختیار رکھنے والے بھی تارکین وطن ہونے چاہئیں لیکن بدقسمی سے اس محکمے کو بھی افسر شاہی نے اپنی سہولتوں اور مراعات کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے گذشتہ دور حکومت میں ممتاز برطانوی قانون دان امجد ملک کو او پی ایف کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین بنایا گیا تھا اور وہ اپریل 2016ء سے جون 2018 تک اس منصب پر فائز رہے مگر وہ بھی اوورسیز پاکستانیوں کے دیرینہ مطالبات کو پورا کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہ کر سکے کیونکہ پاکستانی افسرشاہی ہر کام کو اپنے حساب سے کرنے کی عادی ہے۔ وہ کسی بھی اوورسیز پاکستانی کو اپنی فرسودہ پالیسیوں میں تبدیلیوں کے لیے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ جو لوگ کبھی ترک وطن کے تجربے سے نہ گزرے ہوں اور جنہوں نے اپنے دیس سے ہجرت کی صعوبتوں کا سامنا نہ کیا ہو وہ کبھی اوورسیز پاکستانیوں کی مشکلات کو نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی قابل عمل پالیسی یا حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔ اسی لیے تارکین وطن کا ایک دیرینہ مطالبہ یہ بھی ہے کہ او پی ایف کے کلیدی اور فیصلہ ساز عہدوں پر اوورسیز پاکستانیوں کو فائز کیا جائے وگرنہ یہ ادارہ بھی پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز کی طرح حکومتی وسائل کے لیے سفید ہاتھی بنا رہے گا۔ اس معاملے میں گزشتہ دنوں امجد ملک سے میری بات چیت ہوئی تو وہ او پی ایف سے اپنی وابستگی کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہماری حکومتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اوورسیز پاکستانی ہمارے ملک کا کس قدر قیمتی اثاثہ ہیں۔ یہی لوگ ہمارے ملک کے اصل سفیر اور خیر خواہ ہیں۔ نئی حکومت کے لیے اب یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے لفظی دعوؤں کو عملی جامع پہنائے اور پاکستانی تارکین وطن کی اہمیت اور ملکی ترقی میں ان کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے موثر پالیسی تشکیل دے۔ امجد ملک نے بتایا کہ پاکستان کی تعمیر نو کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا حالات کا اہم تقاضا اور ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ او پی ایف کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی اوورسیز کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ وطن واپسی پر اوورسیز پاکستانیوں کو مکمل سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ان کی دستاویزات کی آن لائن تصدیق اور مخصوص امیگریشن کاؤنٹر کی سہولت کا انتظام کیا جائے۔ کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے ون ونڈو کی آسانی،خصوصی ٹربیونلز اور کمرشل کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ بھیجنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو قومی اعزازات سے سرفراز کیا جائے۔ تارکین وطن کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں کی گنجائش پیدا کی جائے اور اپنے ملک میں واپس آ کر آباد ہونے اور سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ شہر بنایا جائے۔ یہ وہ مطالبے اور تجاویز ہیں جن پر عملدرآمد سے حکومت پاکستان ہی فائدے میں رہے گی۔ مسلم لیگ(ن) کی مخلوط حکومت اگر چاہتی ہے کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی پی ٹی آئی کے لیے حمایت کا زور توڑ دے تو اسے اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے فوری طور پر وہ تمام کام کرنے ہوں گے جو عمران خان کی حکومت اپنے سوا تین سالہ دور حکومت میں نہ کر سکی۔ اگر موجودہ حکومت اپنی کارکردگی کو شاندار بنا کر بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کے دل جیت لے اور ان کے دیرینہ مطالبات مان کر نئی حکمت عملی اپنائے تو یقینا پی ٹی آئی اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی حمایت سے محروم ہو سکتی ہے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی ہی اس کی مخالف سیاسی جماعت کی تنقید کا بہترین جواب ہوتی ہے۔

٭٭٭٭