225

بحثیت پاکستانی ہماری سوچ اور ہٹ دھرمی۔

متحدہ عرب امارات کی سات ریاستیں ہیں، ابوظہبی، دبئی، شارجہ، عجمان، ام القوین، راس الخیمہ اور فجیرہ.. ابوظہبی سب سے بڑا ہے، اُم القوین سب سے چھوٹا. اس ملک کی صرف پندرہ فیصد آبادی لوکل عرب ہے، پچاسی فیصد آبادی دیگر ممالک سے آئے ہوئے لوگ ہیں.. زیادہ تر بنگالی، پاکستانی اور انڈین ہیں، اب فلپینیوں اور افریقیوں کی بھی کافی تعداد ہو گئی ہے. باقی لگ بھگ ایک سو ساٹھ ممالک کے لوگ امارات میں مقیم ہیں اور مختلف کام کرتے ہیں.

تقریباً تمام گلف ممالک کا ہی یہی حال ہے، لوکل آبادی بیس تیس فیصد سے زیادہ نہیں، اور جو لوکل عربی ہیں وہ کسی کام جوگے نہیں ہیں. زیادہ تعداد ہندوؤں اور عیسائیوں کی ہے، نوکریاں اور ویزے دینے میں بھی انہی کو ترجیح دی جاتی ہے. عرب کہتے ہیں ہمیں صرف کام چاہیے خواہ کوئی بھی کر دے، نائی، دھوبی، موچی، مستری وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ کوئی بھی کام کروانا ہو، ہمیں اپنے کام سے مطلب ہے، ویلڈنگ کروانی ہے ابا کا جنازہ نہیں پڑھوانا، گاڑی چلانی ہے تو ڈرائیور چاہیے امام مسجد نہیں.. یہ بات انہوں نے آج سے تیس سال پہلے سیکھ لی تھی، اب وہ آہستہ آہستہ اسلامی شدت پسندی سے نکل رہے ہیں.. عقیدہ اور مسلک کی بجائے قابلیت اور کارکردگی پر منتخب کر رہے ہیں.

مہذب دنیا اور معاشرے انسان کا عقیدہ اور مذہب نہیں دیکھتے، تعلیم، تربیت، قابلیت، استعداد اور کارکردگی کی بنیاد پر پرکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اپنے ہی معیار ہیں. ہم زات پات، برادری، رنگ، نسل، لسانی، مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر انتخاب کرتے ہیں. پیسہ پہلی ترجیح ہوتی ہے جو زیادہ پیسے لگائے آسامی اسی کی.. پھر ہمارے رشتے دار، محلے دار، گاؤں والے، زبان والے، زات والے ترجیح ہوتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادارے نالائقوں سے بھرے پڑے ہیں. ہم نے رشوت، سفارش، اقرباء پروری، کوٹہ سسٹم اور پرچی سسٹم کے ذریعے پاکستان کا بیڑا غرق کر لیا ہے، ہمارے مسائل پچھلے پندرہ سال سے جوں کے توں کھڑے ہیں. ہمیں ہر ادارے میں اچھے ایڈمنسٹریٹر اچھے مینیجر کی ضرورت ہے. ہمارے وزیراعظم نااہل، تمام وزراء نااہل، حکومتی اداروں کے چئیرمین اور ڈائریکٹر جنرلز سے لے کر معمولی چپڑاسی تک سب کے سب نااہل…

آپ قائداعظم محمد علی جناح کے آخری خطاب اٹھا کر دیکھیں، یہ ملک صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر بطور پاکستانی رہنے کے لیے بنا تھا، لیکن پچھلے ستر سال میں ہم نے اس ملک کو اقلیتوں کے لیے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا. کراچی کے یہودیوں پر آرٹیکل میں لکھ چکا ہوں، کوئٹہ کے ہزارہ ہوں یا پاڑا چنار کے شیعہ، سندھ کے ہندو ہوں یا پنجاب کے عیسائی.. ہم ہر اقلیتی برادری پر ظلم کر رہے ہیں، ابھی پچھلے سال ہی بارہ ربیع الاول کے موقع پر قادیانی عبادت گاہ پر حملہ کیا گیا تھا.. آپ اس بات سے ہماری عدم برداشت، شدت پسندی اور ایمانی کیفیت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں..

ہمارے پاس کوئی فارن پالیسی ہے نہ ہی کوئی ڈھنگ کا فارن منسٹر، وزیر داخلہ تو ہے لیکن صفات معدوم ہیں، وزیر ریلوے، وزیر پانی و بجلی، وزیر اطلاعات و نشریات کیا کام کرتے ہیں؟ موجودہ ملکی صورتحال دیکھیں، ان حالات میں ہمیں صرف اچھی ایڈمنسٹریشن کی ضرورت ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو کیسا بھی ہو کسی بھی رنگ نسل اور مذہب سے ہو. اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانی کافر ہیں لیکن کیا قادیانی بطور اقلیت پاکستان میں نہیں رہ سکتے؟ کیا قادیانی پاکستان کی خدمت نہیں کر سکتے؟ ہندو، سکھ، عیسائی محب وطن ہو سکتے ہیں تو کیا قادیانی محب وطن نہیں ہو سکتے؟

اب چونکہ قادیانی وزیراعظم بننے کا “خطرہ” ٹل گیا ہے بل واپس ہو گیا ہے تو شاید اب میری بات بہتر طور سے سمجھ آ جائے، ہم پاکستانی بحیثیت مجموعی چور ہیں، کوئی مہذب متمول ملک ہمیں ویزہ دینے کو تیار نہیں، ہمارے اداروں کی اسناد قابل قبول نہیں جب تک کہ ایمبیسی اٹیسٹ نہ کر دے. آپ پورا پاکستان کھنگالیں اور سو کام کے آدمی ڈھونڈیں، وزارتیں اور ادارے ان کے سپرد کریں اور پھر چمتکار دیکھیں. وزیراعظم سنی ہو یا شیعہ، مسلمان ہو یا غیر مسلم، کیا فرق پڑتا ہے؟

آنکھیں کھولیں، یہ جمہوریت ہے، پارلیمنٹ ہے، سینیٹ ہے، صدارتی نظام ہے، قادیانی وزیراعظم بن بھی جائے تو بھی آئین تبدیل نہیں کر سکتا، ہندو وزیراعظم بن جائے تو باقی پاکستان ہندو نہیں بنتا.. پچھلے ستر سال کے وزرائے اعظم دیکھ لیں، ان کے مذہب اور مسلک دیکھ لیں.. کیا پاکستانی قوم بے نظیر بھٹو، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی کے مذہب پر ہو گئی ہے؟

اب آئیں دوسری طرف، آپ اپنی وال پر اپنے مذہب اور مسلک کی نشر و اشاعت کرتے ہیں، میں نے کبھی روکا ہے؟ آپ اپنے اپنے مولویوں کی ویڈیوز شئیر کرتے ہیں، میں نے کبھی روکا ہے؟ آپ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی وکالت میں پوسٹ لگاتے ہیں، میں نے کبھی کہا ہے مت کرو؟ مارک زکربرگ نے ہر بندے کو اس کی اپنی ذاتی وال دی ہے، وہ جو چاہے جو سوچے لکھے، اسی لیے ہر وقت پوچھتا رہتا ہے what’s on your mind میں بھی اپنا مؤقف اپنی وال پیش کرتا ہوں، تنقید وصول کرتا ہوں، گالیاں برداشت کرتا ہوں.. علمی بات ہو تو دلائل بھی دیتا ہوں.. بدتمیزی کبھی کسی سے نہیں کی.. کل ہی ابوبکر قدوسی سے یہ بات ہو رہی تھی، لوگ چاہتے ہیں کہ میں اپنا دماغ فریج میں رکھ دوں، اور ان کے دماغ سے سوچنا شروع کر دوں، وہی کہوں جو وہ سننا چاہیں، وہ لکھوں جو وہ پڑھنا چاہتے ہیں.. یہ قوم لاتوں کی بھوت ہے، میں نے قلم کو ہی جوتا بنا لیا.. اب روزانہ چھترول کرتا ہوں.. سیاست دان ہوں یا مولوی، فوجی ہوں یا عربی سب کو ایک ہی جوتے سے ہانکتا ہوں..

میرے دوست رضا شاہ جیلانی نے مجھے سکھایا کہ اپنے سٹائل سے لکھو، خود کو تبدیل کرو گے تو لکھ نہیں سکو گے، میں جیسے سوچتا ہوں، جیسے بولتا ہوں ویسے ہی لکھ دیتا ہوں، دوسروں کی مرضی اور حدود و قیود سے لکھنا، پالیسیوں کو فالو کرنا میرے بس کی بات نہیں.. میٹرک پاس جاہل آدمی ہوں ، سڑکوں پر دھکے کھا کھا کر سیکھا ہے، اور جو سیکھا ہے جیسے سیکھا ہے ویسے کا ویسا واپس لوٹا رہا ہوں..
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں