224

حقوق مولویاں۔

ہمارے معاشرے میں مولوی پیشہ کو قابل احترام نہیں سمجھا جاتا اور کوئی بھی اعلی تعلیم یافتہ اور امیر آدمی اپنے بیٹے کو مولوی بنانے کو تیار نہیں ہے۔ غریب آدمی جو اپنے بچوں کو سکولوں میں نہیں پڑھا سکتا وہ اپنے بچوں کو مولوی بنوانے درس میں بھیج دیتا ہے۔

یہ درس پرائیویٹ ہوتے ہیں اور مخئیر حضرات کے چندے سے چلتے ہیں۔ ان درسوں میں چونکہ حکومتی امداد نہ ہونے کے برابر ہے اسلئے سہولتوں کا فقدان ہے اور جیسے تیسے کر کے طالب علم مولوی اور عالم بن کر باہر نکلتے ہیں اور مختلف مساجد سنبھالنے کیلئے تگ و دو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

انکی پرمانینٹ نوکری نہیں ہوتی اور تھوڑی سی تنخواہ پر انہیں رکھ لیا جاتا ہے۔ ہر مسجد کی ایک مولوی سلیکشن کمیٹی ہوتی ہے جو زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور مولوی صاحب کو جتنا عرصہ اس مسجد میں رہنا ہوتا ہے ان اصحاب کی ٹی سی کر کے ہی رہنا ہوتا ہے۔

ہمارے مولوی حضرات عام طور خاندانی منصوبہ بندی کو بھی غلط سمجھتے ہیں اور عموماً انکے چھ سات یا آٹھ بچے بھی ہوتے ہیں۔ انکا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ اس مہنگائی کے دور میں مولوی کو اپنے بچے پالنے کیلئے جو تگ و دو کرنی پڑتی ہے یہ یا مولوی جانتا ہے یا اسکا خدا جانتا ہے۔

کوئی بچہ بیمار ہو جائے یا بیوی بیمار ہو جائے اسکے علاج کروانے کے پیسے مولوی صاحب کے پاس نہیں ہوتے کیونکہ جس معمولی تنخواہ پر اسے رکھا جاتا ہے اس سے بمشکل روٹی پوری ہوتی ہے۔

مولوی صاحب کو مسلسل سلیکشن کمیٹی کی ٹی سی برقرار رکھنی پڑتی ہے اور اسکی نوکری ہمیشہ کچی ہی رہتی ہے کبھی پکی نہیں ہوتی اور نوکری سے نکالنے کیلئے کوئی لمبا چوڑا نوٹس بھی نہیں ہوتا بلکہ ایک وارننگ ہوتی ہے کہ فوراً نکل جاؤ۔

مولوی صاحب ساری عمر اپنا گھر نہیں بنا سکتے اور محلوں کی مسجدوں میں دھکے کھا کر اپنی اولاد کی روزی روٹی کی فکر میں رہتے ہیں اور انہی مشکلات سے لڑتے لڑتے کسی دن زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور انکے بیٹے وسائل کی کمی کی وجہ سے چونکہ اعلی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اسلئے انکے سامنے بھی آ جا کر مولوی کا پیشہ اپنانا ہی رہ جاتا ہے۔ اور یوں مولوی کی کسمپرسی کا سفر نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔

عربی ملکوں میں مولوی حضرات کو بہت زیادہ عزت دی جاتی ہے اچھی تنخواہیں دی جاتی ہیں انکے بچوں کو علاج اور تعلیم مفت دی جاتی ہے اسلئے ان ملکوں میں مولوی پیشہ بھی ایک قابل عزت پیشہ سمجھا جاتا ہے اور لوگ انہیں بہت عزت دیتے ہیں۔

ہماری حکومت کو اپنی لوٹ کھسوٹ سے فرست نہیں ہے اور آج تک کسی حکومت نے معاشرے کے پسے ہوئے ان مولوی حضرات کے بارے میں نہیں سوچا جو ہمارے بچوں کے کانوں میں اذان دیتے ہیں مساجد میں پانچ وقت نماز پڑھاتے ہیں ہمارے بچوں کے نکاح پڑھاتے ہیں ہمارے مُردوں کے جنازے پڑھاتے ہیں۔ انکے گھر کا چولہا کیسے چلتا ہے بچوں کا علاج کیسے ہوتا ہے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں۔ ہمیں ان چیزوں کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں کیونکہ ہمیں صرف اپنے کاموں سے مطلب ہے مولوی کی فلاح و بہبود کس چیز کا نام ہے ہم اس سے نا آشنا ہیں۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں