Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
356

ناکام محبت (پہلی قسط)

نوید تعلیم کے سلسلے میں داخلہ لینے گاؤں سے پہلی بار شہر آیا تھا شہر آکر دیکھا تو سب کچھ انکے لیے نیا تھا بہت ساری ایسی چیزیں تھی کہ جو زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا اسی وجہ سے انہیں ہر چیز میں ایک سے بڑھ کے تجسس کا احساس ہوتا اور وہ اسے اپنی زندگی کی یاد گار لمحات بناتا رہا۔

جب داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ کے دن قریب آئے تو انہوں نے محنت سے ٹیسٹ کی تیاری کی اور مکمل تیاری کے ساتھ ٹیسٹ والے دن یونیورسٹی پہنچا وہاں آکر دیکھتا ہے تو سب کچھ بہت مخلتف تھا جو کچھ انہوں نے سوچا تھا اس سے بہت مختلف منظر تھا۔

کچھ لمحوں کے لیے وہ گاؤں کی طرف پلٹا اور سکول کی سوچنے لگا وہاں کیا تھا گرتی دیوار کے ساتھ چاردیواری اور ٹوٹے پھوٹے کمرے جہاں نہ کرسی صحیح حالت میں تھی نہ ہی اور کوئ چیز ترتیب سے تھی نہ کھیلنے کا گراؤند مگر یہاں دیکھے تو اونچی عالیشان دیواریں مختلف نقش و نگار کے ساتھ خوبصورت چاردیواری پھر کھیلنے کے الگ الگ گراؤند اور عالیشان کلاسیس جس میں ہر چیز اپنی اصلی حالت میں موجود تھی وہ سوچ رہا تھا کاش یہ سب گاؤں کے سکول اور کالجزز میں بھی ہوتا۔

جیسے ہی اس سوچ سے باہر نکلا دیکھا تو ہر طرف لڑکے لڑکیاں رنگے برنگے کپڑوں میں ملبوس تھے یہ منظر بھی انکے لیے پہلی بار تھا کیونکہ گاؤں میں لڑکے لڑکیوں کے لیے الگ الگ سکولز تھے اور مجال کے کوئی لڑکا لڑکی کی طرف دیکھے یا لڑکی لڑکے کو دیکھے یا ساتھ بیٹھے مگر یہاں تو ہر دوسری قدم پے لڑکے لڑکیاں اکھٹے بیٹھے نظر آئے اور ایک ساتھ کھیل رہے یہ سب مناظر انتہائی دلکش اور عجیب و غریب تھے۔

اتنے میں ایک دوشیزہ انکے پاس آئی جو کہ انتہائ شرمیلی تھی

ایکسکیوز می سر۔

نوید ڈرتے ہوئے بولا اور چونک گیا

سر کون سر ؟

لڑکی مسکراتی ہوئی بولی میں یہاں پہلی بار آئی ہوں کیا آپ  مجھے ٹیسٹ والا کمرا دیکھا سکتے ہیں ؟

پھر نوید کی جان میں جان آئی بولے جی میں بھی پہلی بار آیا ہوں مجھے بھی معلوم نہیں جانے کس کلاس میں ٹیسٹ ہوگا ؟

اچھا پھر دونوں ساتھ چلتے کسی سے پوچھ لیتے ہے نوید ششدر رہ گیا یہ کیا ہوا لیکن ساتھ چلتا بنا مگر خوف اس پے طاری تھا اسلئے بات نہیں کر سکا تھوڑا آگے جانے کے بعد معلوم ہوا مطلوبہ کلاس وہی سامنے ہے جہاں پر ٹیسٹ ہونا ہے۔

وہی سے دونوں کے سفر کا خاتمہ ہوا دونوں بیسٹ آف لک بول کے ٹیسٹ کے لیے چلے گئے۔

ٹیسٹ کے بعد نوید تھکا تھکا ہاسٹل آگیا مگر انکے دماغ میں وہ سارا منظر گھوم رہا تھا لڑکی کا آنا ملنا ساتھ کلاس تک جانا۔

دل و ماغ میں طرح طرح کی چے مگوئیاں چلنے لگی مگر انہوں نے کوشش کرکے دوبارہ گاؤں کا سوچا یوں ابتدائی طور پے ہے اس منظر نامے سے خود کو دور کیا۔

ایک ہفتہ گزر گیا کافی لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی اب کافی حد تک انکی ہچکچاہٹ دور ہوئی تھی اور شہر کے ماحول میں بھی خود کو ایڈجسٹ کرنے میں کامیاب بھی ہوا تھا۔


ہفتے بعد اطلاع ملی ٹیسٹ کی لسٹ لگی ہے بھاگتے ہوئے یونیورسٹی گیا دیکھا تو ٹیسٹ پاس تھی خوشی خوشی ہاسٹل آکر گھر اطلاع دی اور گاؤں کے دوستوں کو بھی اطلاع دی اب انکا کافی حد تک مزید اعتماد بڑھ گیا تھا اور حوصلہ بھی کافی آیا۔

اگلے ہفتے سے باقائدہ کلاسیز شروع ہوئی پہلے دن یونیورسٹی میں من چلوں کے ہاتھوں کافی مزاق کا بھی سامنا ہوا جب کلاس پہنچا تو ایک لڑکی پاس آکر سلام کرتی ہے وہ سمجھا وہ بھی کوئی سیئنر ہے جو مزاق کرنے آئی ہیں۔

جلدی سے بولا جی پہلے ہی باہر بہت مذاق ہوا ہیں پلیز آپ معاف کریں۔

لڑکی بولی ارے نہیں میں بھی نیو ہوں

میں شمائلہ جو ٹیسٹ والے دن آپ سے ملی تھی کلاس کا بھی پوچھا تھا۔

اچھا اچھا آپ وہی کیا اتفاق ہے دیکھو ہم دونوں ایک ہی کلاس میں۔

نوید۔ میرا نام نوید ہے۔

شمائلہ ۔ اچھا نام ہے اچھا لگا آپ سے ملاقات کرکے۔

پہلے دن کلاس ہوئی ابتدائی تعارف سے معلوم ہوا لڑکی بھی جس صوبے سے آئی ہیں وہاں کے ایک دور دراز گاؤں سے تعلق رکھتی ہے۔

کلاس سے چھٹی کے بعد ہاسٹل آیا اور پہلے دن کی مذاق اور لڑکی سے ملاقات کا سوچنے لگا دل میں دل میں یہ کہ رہا تھا یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ فوراا دوست کو کال ملائی انہیں ساری صورتحال سے آگا کیا۔

دوست ۔ واہ گروجی تم تو کمال کے نکلے کلاس کے پہلے ہی دن بھابی کو بھی دیکھ لیا۔

نوید۔ ارے یار آپکو بھابی کی پڑی ہوئی ہے میں ادھر کس صورتحال سے دوچار ہوں اچھا میں تھکا ہوا ہوں آرام کرتا کوں پھر بات ہوگی

اللہ حافظ۔

کلاسز جاری رہی کافی وقت ہوا اب شمائلہ سے سے کافی حد تک قربت ہوئی تھی کلاس سے بات ایس ایم ایس تک آگئی۔

روز گڈ مارننگ ۔گد ایوننگ ۔گڈنائت مسیجزز کے بعد ایک دوسرے کے کھانے کا پوچھنا کسی نہ کسی بہانے سے مسیج کرنامعمول بن گیا تھا۔

ایک دن کال آئی

شمائلہ۔ آج میری رومیٹ نہیں ہے اکیلی بور ہو رہی تھی اسلئے سوچا آپ سے بات کروں۔

نوید ۔ جی میں بھی اکیلا تھا

کچھ کلاس کے ٹاپکس ڈسکس ہونے کے بعد باقائدہ تعارف شروع ہوا جس میں گاؤں سے لیکر کتنے بہن بھائی خاندان سب کچھ تعارف میں شامل ہوا۔

آخر میں اس بات پے اتفاق ہو گیا کہ کلاس میں ہم اچھ دوست بنینگے اور ایک دوسرے کا خیال رکھینگے۔

اسکے بعد روزانہ کال پے بات معمول بن گئی اور یہاں تک کہ عادت بن گئی۔

یوں اسطرح پہلا سمسٹر پورا گیا اور ہر گزرتے دن کے بعد انکی دوستی مظبوط ہونے لگی۔

پھر جب گرمیوں کی چھٹی آگئی تو دونوں اپنے گاؤں واپس گئے اب گاؤں میں واپس جاکر دونوں کے لیے معمول کے مطابق بات کرنا بہت مشکل بن گیا تھا اسلئے ایک دوسرے کو بہت مس کرنے لگے۔

ایک دن شمائلہ بولی نوید آج بہت ہمت کرکے کچھ بولنا چاہتی ہوں

نوید ۔جی جی بولیں

شمائلہ ۔دیکھیے نوید مجھے آپ سے محبت ہوئی ہے اور کب سے یہ بولنا چاہتی ہوں مگر ہمت نہیں ہوئی میں آپکے بغیر نہیں رہ سکتی نوید مجھ سے دور مت ہونا پلیز۔

دل تھامتے ہوئے

نوید ۔ اب میں کیسے آپکا شکریہ ادا کروں کب سے یہ سنے کا انتظار کر رہا تھا بس مجھے خود بھی بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

یوں باقائدہ محبت کے اظہار کا آغاز ہوا

چونکہ اب گاؤں میں ہونے کی وجہ سے رابطہ کم ہوا تھا اسلئے ایک دوسرے کو بہت مس کرنے لگے اور انتہائی بے چینی سے چھٹی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہے۔

پھر اللہ اللہ کرکے وہ دن بھی آیا جب چھٹی ختم ہوگئی دونوں اپنے اپنے گاؤں سے واپس شہر آگئے اور ساتھ میں ایک دوسرے کے لیے تحفے تحائف بھی لیکر آگئے۔

اب چونکہ محبت کا کھل کے اظہار ہوچکا تھا اسلئے کلاس میں بھی انکا سب کے سامنے بیٹھنا اور یونیورسٹی میں ساتھ رہنا بھی معمول بن گیا۔

محبت انتہا کو تھی اور چار سمسٹر ایسے پورے ہوئے جیسے چار دن ثابت ہوئے۔

شمائلہ اور نوید نے اس وعدے کے ساتھ ایک دوسرے کو روتے ہوئے الوداع کیا کہ کانوکیشن میں اپنے اپنے والدین کو بلائینگے پھر یہاں ان سے رشتے کی بات کرینگے۔

ان کو کیا پتہ تھا یہ دونوں کی ملاقات کا آخری دن ہوگا۔

جیسے ہی نوید گاؤں پہنچا تو سب دوستوں نے انہیں سرپرائز کا بولا وہ سوچنے لگا شائد ڈگری مکمل کرکے آیا ہوان اس کے لیے دوستوں نے کوئی خاص دعوت کا اہتمام کیا ہوگا۔

مگر جیسے ہی گھر پہنچا تو انہیں ڈگری کی مبارکبادی سے پہلے پھوپی کی بیٹی سندس سے منگنی کی نوید سنادی گئی اور ساتھ یہ خوشخبری بھی دی گئی کہ سارے خاندان والے بہت خوش ہیں آج ہی منگنی کی تاریخ طے ہے۔

انکے امی ابو اور دیگر بہن بھائیوں میں خوشی دیدنی تھی نوید ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ اسے والدین کی فیصلے سے بغاوت کرتا۔

حیران پریشان ہوا اور دوست کو بلایا

نوید ۔ یار دیکھو تمھیں سب معلوم ہے میں شمائلہ سے پیار کرتا ہوں اور وہ بھی مجھ سے پیار کرتی ہے ہمارا یہ فیصلہ ہوا کہ کانوکیشن کے دوران ہم والدین کو بتائینگے

اب یہ ادھر کیا تماشا ہو رہا ہے میرے ساتھ وہ بھی پھپھو کی سندس کےساتھ؟

مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا کیا کروں اب اگر بغاوت کروں تو امی ابو خفا ہونگے گاؤں والے کہینگےبیٹے کو بڑے ناز کے ساتھ شہر بھیجا تھا انہوں نے والدین کی بات نہیں مانی اور مان لوں تو میرا پیار میرا شمائلہ کا کیا ہوگا؟۔

دوست۔ دیکھو پریشان مت ہونا اللہ مالک ہے کچھ نہ کچھ ہوجائے گا یار تم ایک کام کریں جلدی فون نکالے شمائلہ کو کال کریں انہیں ساری صورتحال بتائیں۔

نوید۔ نہیں یار پاگل تو نہیں ہوئے ہو وہ ابھی تک سفر میں ہے دو دن کا راستہ ہے میں کیسے انہیں یہ بتادوں؟۔

دوست۔ اچھا یار تو آرام کریں ابھی شام ہونے میں کافی وقت میں کچھ کرتا ہوں۔

نوید ۔ اللہ کا واسطہ دوست ہو کچھ راستہ نکالے ورنہ بہت برا ہوگا۔

یہ کہتے ہوئے رونے لگا اور روتے روتے سوگیا۔

دوست سیدھا انکے امی کے پاس گیا اور ساری صورتحال بتادی۔

امی ۔ بیٹا یہ سب مجھے پتہ ہے مجھے صبا کے بیٹے نے بتایا تھا آپکا بیٹا کسی سے شادی کرنے والا ہے اسلئے آتے ہی انکے ہاتھ پاؤں باندھنے کا فیصلہ کیا اور سندس بھی جوان ہوئ تھی وہ لوگ بھی چاہتے تھے انکی شادی ہمارے گھر ہو۔

نوید جب آرام کرنے بعد اٹھا تو کافی مہمان آئے ہوئے دوست کو ادھر اُدھر دیکھا تو نظر نہیں آیا کال ملائی۔

نوید۔کمینے تو کہاں غائب ہوا ؟

دوست ۔ بس اب چپ رہے میں نے پلان سوچا ہے ابھی کچھ بولو گے تو آپکے والدین اور خاندان والے خفا ہونگے جو رہا ہونے دو بعد میں کچھ کرتے ہیں۔

خیر اسی شام سندس سے منگنی ہوئی  یوں نوید اپنی محبت جسے لیکر گاؤں گیا تھا پھپو کی بیٹی اور خاندان والوں کے سامنے بے بسی سے ہار بیٹھا۔

اب رونے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔

ادھر شمائلہ نوید کی سپنے سجائے گھر پہنچنے والی تھی اور دل ہی دل میں نوید کے ساتھ یادگا باتیں یاد کر رہی تھی جو گاؤں پہنچ کے سہیلیوں کو سنانے کا وعدہ کرچکی تھی۔

مگر جیسے گھر پہنچی تو دیکھا وہاں جشن کا سماں ہیں ہر طرف مبارکبادی کے بینرز اور پھول لگے ہوئے ہیں انکی خوشی دیدنی تھی وہ سمجھ رہی تھی چونکہ گاؤں سے میں پہلی لڑکی ہوں جو ڈگری مکمل کرکے آئی ہوں اسلیے والدین اور خاندان والوں نے ملکر یہ سب انتظامات کئے ہونگے۔

جب امی ابو سے ملاقات ہوئی وہ بھی انہتائی خوش تھے اور دیگر لوگ بھی بہت خوش تھے۔

اتنے میں اچانک آواز آئی لڑکے والے آگئے ہیں۔

شمائلہ۔ کونسے لڑکے والے ؟

امی ۔ بیٹا دیکھو آپ ڈگری مکمل کرکے آئی ہو اس خوشی کے ساتھ ہم نے آپکی دوسری خوشی ماموں کے بیٹے کامران کے ساتھ طے کی ہیں۔

یہ سن کے ایسا لگا جیسے پاؤں سے زمین نکل گئی ہو بھاگتے ہوئے کمرے میں گئی اور

فون نکالی نوید کا نمبر ڈائل کرنے لگی پھر کاٹ دی

سوچ میں پڑ گئی اب انہیں یہ سب کیسے بتاؤں؟۔

وہ کیا سوچے گا انکا کیا بنے گا ؟

اور میں یہ سب کیسے ماں لوں؟

سوالات کی جیسے ایک سونامی آگئی ہو۔

ان خیالات اور سوچوں میں گم تھی اتنے میں بڑی خالہ آئی زبردستی مٹھائ کھلادی اور دوسرے کمرے لے گئی وہاں پہلے سے قاضی صاحب اور دیگر لوگ ماموں کے بیٹے کامران کے ساتھ شمائلہ کا انتظار کر رہے تھے۔

یوں شمائلہ کا پیار بھی ماموں کےبیٹے کامران کے نام ہوا۔

اب آگے کیسے ایک دوسرے کو خبر دی اور کانوکیشن میں کیسے ملاقات ہوئی اگلی قسط میں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں