231

لودھراں انتخاب پی ٹی آئی کی ہار کی وجہ۔

لودھراں کے حلقہ 154کے اہم ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار علی ترین کی شکست ایک اعتبار سے اپ سیٹ ہے کہ دو سال پہلے جہانگیر ترین نے یہ حلقہ صدیق خان بلوچ جیسے جغادری سیاستدان دان سے چھین لیا تھا اور لگ رہا تھا کہ اب یہ ان کا محفوظ حلقہ بن چکا ہے۔گزشتہ روز کے ضمنی انتخاب میں انہی جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین پچیس ہزار سے زائد ووٹوں سے ن لیگ کے امیدوار پیر اقبال شاہ سے شکست کھا گئے۔ 

اس شکست کی تین چار وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ مقابلہ پی ٹی آئی بمقابلہ مسلم لیگ ن تھا ہی نہیں۔ یہ جہانگیر ترین اور مقامی الیکٹ ایبلز گروپ(عبدالرحمن کانجو، پیر اقبال شاہ،صدیق بلوچ، رفیع الدین شاہ، احمد خان بلوچ وغیرہ)کا مقابلہ تھا۔ لودھراں کا حلقہ 154لودھراں شہر، مہرآباد، مخدوم عالی، جلہ ارائیں اور دیگر دیہاتی علاقوں پر مشتمل ہے۔یہ حلقہ اور لودھراں کا دوسرا حلقہ 155(دنیا پور، کہروڑ پکا)بنیادی طور پر دیہی حلقے ہیں، جہاں مقامی طاقتور سیاسی شخصیات یعنی الیکٹ ایبلز اہمیت رکھتے ہیں، پارٹی ووٹ یہاں زیادہ اہم نہیں، الیکٹ ایبلز ہی حلقوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ 
پچھلے کئی برسوں سے کانجو خاندان کے چشم وچراغ سابق ضلع ناظم اور موجودہ وفاقی وزیر عبدالرحمن کانجو لودھراں کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ مئی تیرہ کے انتخابات میں عبدالرحمن کانجو کی زیرصدارت ایک آزاد سیاسی اتحاد نے حصہ لیا تھا اور ضلع لودھراں کی تقریباً تمام نشستیں جیت لیں۔بعد میں این اے 154سے جیتنے والے رکن قومی اسمبلی صدیق بلوچ اور 155سے ایم این اے عبدالرحمن کانجو مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے۔ان روایتی سیاستدانوں پر مشتمل طاقتور اتحاد کو جہانگیر ترین نے پہلی مرتبہ چیلنج کیا اور این اے 154کے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین بھاری اکثریت سے ایم این اے بننے میں کامیاب ہوگئے، جہانگیر ترین نے لودھراں کے بلدیاتی انتخاب میں بھی تمام یونین کونسل نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے، اگرچہ انہیں کامیابی نہ ہوئی، مگر وہ ضلع کی سطح پر ایک مضبوط سیاسی دھڑا بنانے میں کامیاب رہے۔
عبدالرحمن کانجو ، صدیق بلوچ اور دیگر مقامی موثر سیاستدانوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر جہانگیر ترین کو شکست نہ دی گئی تو وہ پورے ضلع پر اپنی سیاسی گرفت مضبوط کر لیں گے۔ا س ضمنی انتخاب میں اسی وجہ سے یہ مقامی الیکٹ ایبلز اپنے باہمی اختلافات بھلا کر اکٹھے ہوئے ، کانجو، صدیق بلوچ، رفیع الدین شاہ اورقومی اسمبلی کے امیدوار پیر اقبال شاہ نے متحد ہو کر میدان مار لیا۔
اس جیت کی دوسری بڑی وجہ امیدواروں کا فرق تھا۔ مسلم لیگ ن کے امیدوارسید اقبال شاہ نہایت نیک نام ، شریف اورغیر متنازع شخصیت ہیں، ایسا شخص جسے ہرانا کسی کے لئے آسان نہیں ۔اقبال شاہ کے دادا علاقے کے نہایت نیک نام مخیر انسان تھے، تعلیم اور صحت کے میدان میں انہوں نے بہت خدمات انجام دیں، اقبال شاہ کے والد کو مقامی سطح پر سر سید جیسی تعلیمی خدمات انجام دینے والا شخص کہا جاتا تھا، انہوں نے اپنی زمین دے کر علاقے میں سکول بنایا، اپنے خرچ سے اس کی تعمیر کرائی، سات ایکڑ ذاتی اراضی دے کر اسے ہائر سکینڈری سکول بنوایا ، کہا جاتا ہے کہ وہ ضلع بھر سے بہترین استاد ڈھونڈ کر ان کی منت کر کے اپنے علاقے کے سرکاری سکول میں لے آتے اور اسے پورے ضلع کا مثالی سکول بنا دیا تھا۔ 
اقبال شاہ کو اپنے خاندان کی نیک نامی اور خدمات کا ایڈوانٹیج ہے، علاقے میں ان کا احترام ہے اور ان کا ذاتی ووٹ چالیس پچاس ہزار کے قریب سمجھا جاتا ہے، ان کا ایک بیٹا عامر اقبال شاہ لودھراں سے ایم پی اے بنا، اس وقت وہ ن لیگ کا صوبائی وزیر ہے۔دوسری جانب علی ترین ناتجربہ کار نوجوان ہے، جو الیکشن لڑنے کا خواہش مند بھی نہیں تھا، حالات کی وجہ سے اسے مجبوراً لڑنا پڑا، یہ درست ہے کہ علی ترین علاقے کی سیاست میں متحرک تھا اور مقامی لوگوں سے رابطہ میں رہتا تھا، مگراس کا واسطہ مقامی سطح پر انتہائی متحرک عبدالرحمن کانجو، گراس روٹ لیول پراثرورسوخ رکھنے والے صدیق بلوچ اوراپنے سے بہت زیادہ مضبوط اور تجربہ کار امیدوار سید اقبال شاہ سے تھا۔
شکست کی تیسری وجہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا اوور کانفیڈنس کا شکار ہوجانا بنا۔مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ کارکن اور مقامی سطح کے رہنما اس الیکشن کو جیتا ہوا سمجھ رہے تھے، ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے انہوں نے ڈورٹو ڈور مہم نہیں چلائی اور جلسوں پر انحصار کیا۔ جبکہ ن لیگ نے جلسوں سے زیادہ فرداً فرداً مہم چلائی، اقبال شاہ گھر گھر جا کر مہم چلاتے رہے ، جس کے ثمرات انہیں وصول ہوئے۔ن لیگ کے مقامی رہنماﺅں نے اس حلقے کے مختلف حصے بنا کر ان پر گہرائی میں کام کیا ، پی ٹی آئی البتہ بڑے جلسوںکے خمار میں رہی ، پیسہ انہوں نے البتہ بہت خرچ کیا، انہیں لگتا تھا کہ یہی کافی ہے، مگر آخری تجزیے میں وہ ناکافی ثابت ہوا۔
مسلم لیگ ن کی قیادت اس فتح کو میاں نواز شریف کے بیانیہ کی فتح قرار دے رہی ہے، فتح کے بعد کچھ بھی کہا جا سکتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ فتح عبدالرحمن کانجو کو حاصل ہوئی اور جہانگیر ترین کی سائنسی کمپین کانجو کی دیہی دانش کے مقابلے میں ناکام ہوگئی۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ موروثی سیاست اور گنے کے کاشت کاروں کے خلاف جہانگیر ترین کا عدالت سے سٹے لینا بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔ مقامی ذرائع مگر اس کی تردید کرتے ہیں ، اس حلقے میں گنے کے کاشت کار نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس فیکٹر نے زیادہ اثر نہیں ڈالا، رہی موروثی سیاست تو اس پورے ضلع میں موروثی سیاست والے امیدوار ہی جیتتے ہیں، خود جیتنے والے اقبال شاہ کے ایک بیٹے ایم پی اے ہیں۔عبدالرحمن کانجو بھی سابق وزیر صدیق کانجو کے بیٹے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں