Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
324

صُوفی ہِچ ہائیکر۔

چند دن قبل کسی کام سے بائی روڈ لندن جانا ہُوا. میں نے راستے میں ہائی وے پرایک ادھیڑ عُمر ہِچ ہائیکر کو دیکھا جو ” لفٹ چاہیے” کا ہاتھ سے لکھا پوسٹر اُٹھائے کھڑا سردی سے کانپ رہا تھا. شدید بارش ہو رہی تھی میں نے نہ چاہتے ہُوئے بھی گاڑی روک کر اُسے بٹھا لیا.

اُس سے گُفتگو شُروع ہوتے ہی مُجھے یقین ہو گیا کہ وہ ٹھیک ٹھاک تعلیم یافتہ تھا. یہ بھی اندازہ ہُوا کہ اُسے کوئی مرض لاحق تھا جسکی وجہ سے وہ بات کرتے کرتے بھُول جاتا تھا کہ کس موضُوع پر بات ہو رہی تھی. لیکن دوسری طرف اُسکی یاداشت اتنی اچھی تھی کہ بات کرتے وقت موضُوع کی مناسبت سے مُختلف سکالرز کے لکھے ہُوئے پیراگرافس لفظ بلفظ بیان کر رہا تھا.

پہلے آپکو یہ بتا دُوں کہ ہچ ہائکرز کہتے کن لوگوں کو ہیں پھر اصل بات کی طرف آتے ہیں. ہِچ ہائکرز بے گھر ہوتے ہیں
ایک سے زیادہ دن ایک شہر میں نہیں گُزارتےاور ہمیشہ لفٹ لے کر سفر کرتے ہیں . جس شہر کے لیے لفٹ مل جائے وہی شہر اگلے چوبیس گھنٹے کے لیے اُن کی منزل ہوتی ہے. ہر شہر میں بے گھر لوگوں کے لیے بنے سرکاری سینٹرز میں کھانا کھاتے ہیں وہیں غسل کرتے اور کپڑے دھوتے اور سو جاتے ہیں اور صبح اُٹھ کر پھر سفر شُروع کرتے ہیں. ان میں سے اکثر کو حکُومت کی طرف سے مُختصر سا الاوٴنس ملتا ہے جو یہ اپنی اضافی ضرورتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں.

مُجھ سے لفٹ لینے والے ہچ ہائیکر نے بتایا کہ وہ تیرہ سال ایک یُونیورسٹی میں نابینا سٹوڈنٹس کے لیے کتابیں پڑھ کر ریکاڈنگ کرنے کی نوکری کرتا رہا، لیکن ایمنیزیا کا مرض بڑھنے کی وجہ سے اُسے وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ مل گئی اور اُس نے اولڈ ہوم میں جانے کی بجائے ہچ ہائکر بننے کا فیصلہ کیا.

میرے پُوچھنے پر اُس نے بتایا کہ وہ ایک ہفتے میں تین کتابیں ریکارڈ کر لیا کرتا تھا. وہ اپنے کام کے بارے میں نہ بھی بتاتا تب بھی اُس کے بولے ہُوئے ہر فقرے سے ہزاروں کتابوں کا قاری ہونے کا ثبُوت تو مل رہا تھا. چار گھنٹے کے سفر میں اُس سے ادیانِ عالم، کائنات، ثقافت اور زندگی کے مقصد سمیت کئی موضوعات پر بات ہُوئی.

گو کہ چند منٹ ایک موضُوع پر بات کرتے ہی وہ بھُول جاتا تھا کہ موضُوعٴ گُفتگُو کیا تھا اور ساتھ ہی کوئی نیا موضُوع شُروع ہو جاتا البتّہ اُس سے جس جس موضُوع پر جتنی بھی بات ہوئی اُسکے علم اور مُدلّل اندازِ گُفتگو پر میں رشک میں مُبتلا ہوتا گیا.

وہ ایک سانس میں اپنی کسی بات کی دلیل کے لیے یُونانی فلاسفرز کا حوالہ دیتا دوسری میں مسلم سکالز کا اور تیسری میں قُرونِ اُولیٰ کے ہندو فلسفیوں کی کہی ہُوئی کسی بات سے اپنی بات کو تقویّت دیتا اور اس دوران بھُول بھی جاتا کہ بات کس ٹاپک پر ہو رہی تھی.

اُس کے ساتھ ہونے والی بہت سی باتوں میں سے میں چند آپسے شیئر کرنا چاہتا ہُوں. باتیں کرتے کرتے وہ ایک دم سے کہنے لگا تُمہیں معلُوم ہے تُم اُس روڈ سے کیوں گُزرے جہاں میں کھڑا تھا.. میں نے کہا کیونکہ مُجھے لندن جانا تھا.
ہاں وہ تو تُمہیں جانا ہی تھا وہ بولنا شُروع ہُوا، لیکن تُم اُس خاص وقت میں وہاں سے اس لیے گُزرے کہ وہاں تُمہارے لیے قُدرت نے ایک امتحان رکھا تھا.

اگر تُم اُس امتحان میں ناکام ہوتے تب بھی مُجھے لفٹ ضرور مل جاتی، کیونکہ قُدرت بیک وقت کئی مُتبادل اسباب کا بندوبست کرتی ہے، لیکن تُمہیں اس ناکامی کے بعد اگلا امتحان اس سے مشکل ملنا تھا. خُود کو انسانیت کے لیے مفید ثابت کرنے کے جتنے مواقع ضائع کیے جائیں مفید بننا اُتنا ہی مُشکل ہوتا جائے گا.

وہ بولتا چلا گیا. اُس نے مزید کہا کہ میں پندرہ منٹ پہلے اُس روڈ پر آکر کھڑا ہُوا تھا اور تُم سے پہلے کئی گاڑیاں وہاں سے گُزریں، میرا تو کام ہی انتظار کرنا ہے میرے سفر کا بندوبست کرنا تو قُدرت کا کام ہے لوگوں کا نہیں مُجھے دُکھ اُن لوگوں کی ناکامی پر ہوتا ہے جو امتحان کے ہر سوال کو برابری کی بُنیاد پر سنجیدہ نہیں لیتے، کسی کو یاد ہی نہیں کہ زندگی تو بس ایک امتحان ہے اور قدم قدم پر قُدرت کے امتحان کے سوالنامے رکھے ہیں.

میں حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا جب وہ بات کرتے کرتے پھر بھُول گیا اور کچھ سوچنے لگا. میں نے اُسے اُلجھن میں دیکھ کر ٹاپک بدلنے کے لیے پُوچھا، ابھی تو شاید تُم پچاس کے بھی نہیں ہو اتنے تعلیم یافتہ بھی ہو پھر کیوں سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہو، تُمہیں اپنی بیماری کے باوجُود اچھی جاب مل سکتی ہے۔

اُس کے چہرے سے اندازہ ہُوا اُسے مجھ سے اس احمقانہ سوال کی توقع نہیں تھی. کہنے لگا دیکھو مُجھے گورنمنٹ سے نو سو ڈالر ماہانہ ملتے ہیں جو بھیک نہیں وقت سے پہلے ملنے والی ریٹائرمنٹ کی پنشن ہے۔ اگر تُم غور کرو تو جان سکتے ہو کہ ان پیسوں سے میں باآسانی ریٹائرمنٹ ہوم میں آسائش کے ساتھ رہ سکتا ہُوں لیکن پھر نہ تو خُدا کو اپنی طرف مُتوجّہ کر سکوں گا نہ میں خُود خُدا کو دیکھ سکُوں گا.

میں نے پُوچھا تُم خُدا کو کیسے دیکھتے ہو اور کیسے اُسے اپنی طرف مُتوجّہ کرتے ہو، وہ بولا اپنے اور دوسروں کے لیے قدم قدم پر اُسکے بچھائے ہُوئے امتحان اور بندوبست میں اُسے دیکھتا ہُوں اور ضرورت مندوں کی مدد کر کے اُسے اپنی طرف متوجہ کرتا ہُوں.

میں نے سوچا جو خُود بے گھر ہے اور سفر کے لیے لفٹ کا مہتاج ہے وہ کیا کسی کی مدد کرے گا، لیکن میں نے گُفتگُو آگے بڑھانے کو پُوچھا تُمہارا تو اب کوئی خرچہ ہی نہیں ہے پھر تم اُس پنشن کا کیا کرتے ہو جو تُمہیں ملتی ہے
خیرات کرتا ہُوں.. وہ بولا، اور ساتھ ہی اپنے بیگ کی ایک جیب سے پلان کینیڈا نامی ایک خیراتی ادارے کو دی گئی امداد کے ایگریمنٹس نکال کر مُجھے دکھانے لگا.

ایگریمینٹس اور رسیدوں کے مُطابق وہ بندہ خُدا افریقہ میں تین یتیم بچیوں کا فوسٹر فادر یعنی نگہبان تھا، اور اُنکی تعلیم اور ہاسٹل کے اخراجات کی مد میں سات سو تیس ڈالر ماہانہ پلان کینیڈا کو ادا کرتا تھا. اُس نے اپنی بیماری کی وجہ سے ایسا بندوبست کیا ہوا تھا کہ یہ پیسے ہر ماہ اُسکے اکاوٴنٹ سے خُود نکل جائیں.

میں نے اُسکے کاغذات اُسے واپس کیے اور پُوچھا یہ تُم کب سے کر رہے ہو. تب تک وہ پچھلی ساری بات بھُول چکا تھا پُوچھنے لگا کیا کب سے کر رہا ہُوں. میں نے سوال بدلتے ہُوئے پُوچھا ہم زندگی کے مقصد پر بات کر رہے تھے، تُم یہ بتاوٴ یہ زندگی کس بات کا امتحان ہے.

وہ ایک لمہہ سوچنے کے بعد بولا جب خُدا ہمیں دوبارہ اُٹھائے گا تب ہی حقیقی زندگی شُروع ہو گی، اور اُس زندگی میں مراعات اس بُنیاد پر ملیں گی کہ ہم دُنیاوی زندگی میں انسانوں کے لیے کتنے مُفید تھے اور یہی خُلاصہٴ کلام ہے کہ یہ زندگی خُود کو انسانوں کے لیے مُفید ثابت کرنے اور شُکر گُزار رہنے کا امتحان ہے.

میں نے کہا یار تُم اتنے سمجھدار ہو تُمہیں قُرآن بھی سٹڈی کرنا چاہیے. جواب میں اُس نے سُورةٴ نُور کی اللہ سے مُتعلق ایک بڑی آیت کی انگلش ٹرانسلیشن مُجھے اس انداز میں سُنائی کہ میری آنکھیں بھیگ گئیں. ساتھ ہی اُس نے اپنے بیگ سے قُرآن کی ایک بوسیدہ سی کاپی نکال کر مُجھے دکھائی تو میں نے اُسے کہا کہ میرے پاس قُرآن کی نئی کاپی ہے تُم وہ لے کر یہ مُجھے دے دو.

وہ بولا کہ نہیں اس پر میں نے جگہ جگہ اپنے نوٹس لکھے ہُوئے ہیں . میں نے گاڑی ایک کافی شاپ پر روکی اور دونوں کے لیے ناشتہ لینے چلا گیا۔ کُچھ دیر بعد واپس آیا تو اُس نے میری گاڑی صفائی کرنے کے بعد اندر باہر سے چمکائی ہُوئی تھی اور بونٹ کھولے سکرین صاف کرنے والا واشر لیکُوئیڈ اسکی مخصُوص ٹینکی میں ڈال رہا تھا. میں نے پوچھا یہ تُم نے کہاں سے لیا. اُس نے سامنے گیس سٹیشن کی طرف اشارہ کرکے کہا وہاں سے لیا ہے تمہاری گاڑی میں واشر لیکُوئیڈ والی ٹینکی خالی تھی اس موسم میں یہ ٹینکی بھری ہوئی ہونی چاہیے.

میں نے واشر لیکُوئیڈ کے پیسے دینا چاہے اُس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ جو ناشتہ تم میرے لیے لائے ہو یہ اُس سے سستا ہے۔ اُس سے ہونے والی گُفتگُو کا پانچ فیصد بھی میں لکھ نہیں پایا. وہ تو لندن پُہنچ کر میری گاڑی سے اُتر گیا لیکن میں شاید لمبہ عرصہ اس انسان کو نہ بھُول پاوٴں. واپس آکر اپنے دوستوں سے اسکا تذکرہ میں نے صُوفی ہِچ ہایئکر کے نام سے کیا.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں