484

نکاح مشکل ، زنا آسان- وفا مشکل ، طلاق آسان

ایک دن ایک قریبی دوست ملنے آئے تو ان کے ہاتھ میں عربی مٹھائی بکلاوے کا ایک ڈبہ تھا – بولے آپ کیلئے لایا ہوں، ایک خوشخبری ہے، میری طلاق ہوگئی ہے اور میں بہت اچھا اور پرسکون محسوس کر ر ہا ہوں، ایسے لگتا ہے کہ اللہ نے میرے لیئے زندگی آسان کر دی ہے۔ میں بہت حیران ہوا کہ ہم پیدائشی طور پر اسلامی ملک پاکستان کے باشندے ہیں اور روایتی طور پر بھی ہمارا خاندانی نظام یورپ کی نسبت بہت مضبوط ہے، اور ہمارے ہاں طلاق کو بہت برا سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ بھائی کیا فرما رہے ہیں۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ طلاق یافتہ خاتون پہلے بھی طلاق یافتہ تھیں اور مڈل ایسٹ اور پاکستان میں کچھ ایسے کاموں میں مصروف رہ چکی تھیں جسکا ذکر مناسب نہیں ہے۔ بظاہر دینی وضع قطع کے ساتھ اور سر پہ رومال باندھنے والی خاتون تھیں – لیکن پیسے کا لالچ انسان کے اندر سے اثر انداز ہوتا ہے – ایک نہایت پسماندہ علاقے میں پلی بڑی تھیں۔ پہلی طلاق اور مڈل ایسٹ کی مصروفیت سے ان کی عمر بھی کافی ہو چکی تھی۔
طلاق کو برا سمجھنے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عورت کی دوسری شادی ایک مسئلہ ہے۔ وہاں لڑکی کی عمر پچیس سے اوپر ہو جائے تو ماں باپ کو فکر پڑ جاتی ہے اور تیس سے زیادہ عمر کی کنواری کو اوور ایج یعنی عمر رسیدہ گنا جاتا ہے – ہمارے دوست اپنی رحم دلی ، انسانیت پرستی ، دل پھینک طبیعت اور اپنی عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی آسانی سے موصوفہ کی تین بہنوں کی باتوں میں آ گئے جو پہلے سے یورپ میں تھیں – انہوں نے شادی کر لی اور یورپ واپس آکر اسکو یہاں جلد بلانے کیلئے بھاگ دوڑ شروع کردی – جب وہ یہاں تشریف لے آئیں تو ان کے تیور ہی اور تھے – انکی بہنوں نے کسی اور بندے کا بندوبست کیا ہوا تھا جس سے وہ پہلے سے رابطے میں تھیں – اس بندے کا کہنا تھا کہ تم بس یورپ داخل ہو جاؤ باقی میں دیکھ لوں گا – تو ہمارے دوست کو صرف یہاں آنے کا ذریعہ بنایا گیا جسکا ان کو اس کے آتے ہی اندازہ ہو گیا – انہوں نے اسکو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا۔
یاد رہے کہ اگر شادی کے دوسال کے اندر طلاق ہو جائے تو عمومی طور پر باہر سے آنے والے کو سویڈن سے واپس اپنے ملک بھیج دیا جاتا ہے لیکن یورپ میں آنے والے جھوٹ سچ بول کر کوئی بہانہ بنا کر یہاں رکے رہتے ہیں – موصوفہ کو بھی اس بات کا علم تھا – انہوں نے خود کو خود ہی زخمی کیا پولیس کو بلایا اور گھر سے رخصت ہو کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حکومت کے دارالامان میں جا کر حکومت کے اخراجات پر رہنے لگی – ہمارے دوست پر گھریلو تشدد کا مقدمہ ٹھوک دیا- پولیس اور عدالت نے ہمارے دوست کو بے گناہ قرار دے کر اس عورت کو جھوٹا قرار دیا اور طلاق بھی ہوگئی – ہمارے دوست اسکو نہایت شریف عورت سمجھ رہے تھے لیکن پولیس رپورٹ میں ایسی باتیں لکھیں تھیں جن کا تصور ایک گھریلو شریف عورت کر بھی نہیں سکتی اور نہ ہی ایسی کہانی گھڑ سکتی ہے – ایسی باتیں صرف جسم فروش عورتیں ہی عموما بیانات میں لکھواتی ہیں – اس سے ہمارے دوست کو علم ہوا کہ وہ کس قماش کی عورت کے ہتھے چڑھ گئے تھے اور بمشکل سزا سے بچے ورنہ یورپ میں اکثر مسلمان مردوں کو گھریلو تشدد کی علامت سمجھا جاتا ہے، انکی اس تفصیل سے مجھے مٹھائی کے ڈبے کی اچھی طرح سمجھ آگئی تھی۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں جسم فروشی اور طلاقوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ موبائیل فون سے باطل کی یلغار کا شکار ہر لڑکی لڑکے کا ذہن بلاواسطہ صبح شام ہو رہا ہے – لڑکیوں کی اکثریت کسی نہ کسی لڑکے سے چوری چھپے بات چیت کرتی ہیں – ان میں نہایت شریف گھرانوں کی لڑکیاں بھی شامل ہیں – اچھے رشتوں کے انتظار میں لڑکیوں کی عمر بڑھنے سے یہ مرض مزید پھیل رہا ہے – یورپ میں آزادی کی وجہ سے تقریبا ہر ٹین ایج لڑکی لڑکا سیکس کر لیتے ہیں اور انکے دماغ سے یہ تجسس کا بھوت اتر جاتا ہے۔ وہ تعلیم اور ذاتی کیرئیر پر توجہ دیتے ہیں۔ ایک زمانے میں ہمارے معاشرے میں بھی ٹین ایج میں شادیاں کر دی جاتی تھیں – لیکن یورپ والوں نے اپنی قوم کو کھلا رکھا اور اسلامی ملکوں کو کم عمری کی شادی کے بعد سیکس کو ظلم قرار دے کر ہماری بچوں کے ہاتھ میں موبائیل دے کر سیکس کی ڈائریکٹ معلومات کا آلہ پکڑا دیا – اس لیئے سیکس میں دھوکہ دہی کو فروغ ملا اور لوگ اسکو پیسے کمانے اور یورپ سیٹل ہونے کا ذریعہ بنانے لگے – اب ہماری کئی عورتیں بھی اس دوڑ میں پیش پیش ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں