223

جب دنیا کے بُت خانوں میں اصنام کی پوجا جاری ہو

جب دنیا کے بُت خانوں میں اصنام کی پوجا جاری ہو
جب ایک انسان کی عظمت پر اک پتھر کا دم بھاری ہو
جب من کی جمنا میلی ہو اور روح میں اک بیزاری ہو
جب جھوٹ کے ان بھگوانوں سے ایمان پہ لرزہ طاری ہو

اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو ؟

ہم اہلِ حرم ہیں اب ہم سے یہ کفر گوارا کیسے ہو
ہم لوگ انالحق بولیں گے ہم لوگ انالحق بولیں گے

جب شاہ کے ایک اشارے پر اپنوں میں نیازیں بٹتی ہوں
جب آنکھیں غُربت ماروں کی حسرت کا نظارہ کرتی ہوں
جب قلمیں ظالم جابر کی عظمت کا قصیدہ لکھتی ہوں
جب حق کی باتیں کہنے پہ انساں کی زبانیں کٹتی ہوں

اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو

جب اہلِ خرد کی باتوں پر کچھ جاہل شور مچاتے ہوں
جب بُلبل ہو تصویرِ چمن اور کوّے گیت سُناتے ہوں
جب چڑیوں کے ان گھونسلوں میں سانپ اُتارے جاتے ہوں
جب مالی اپنے گُلشن میں خود ہاتھ سے آگ لگاتے ہوں
اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو

جب مصر کے ان بازاروں میں،کنعان کو بیچا جاتا ہو
جب حرص ہوس کی منڈی میں ایمان کو بیچا جاتا ہو
جب صوم صلاۃ کے پردے میں قران کو بیچا جاتا ہو
انسان کو بیچا جاتا ہو، یزدان کو بیچا جاتا ہو
اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو

جس دور میں کعبے والوں کو گرجا کے نظارے بھاتے ہوں
جس دور میں مشرق والے بھی مغرب کے ترانے گاتے ہوں
جس دور میں مُسلم لیڈر بھی کچھ کہنے سے گھبراتے ہوں
جس دور میں سبقت،غیرت کے اسباب عدم ہو جاتے ہوں
اُس دور میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو


(سائیں مشتاق سبقت)