318

ہندوستان میں عجیب و غریب رسم ورواج۔

ہندوستان بےشمار مختلف اقوام میں منقسم ایک ایسا ملک ہے جہاں معیشت کی ترقی کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کی صنعت بھی مضبوط ہوئی ہے اور زیادہ تر افراد کے ہاتھ میں سماٹ موبائل فونز آگئے ہیں اور بڑی تعداد میں نوجوان انٹرنیٹ کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔

اس تیزی کیساتھ ترقی کرتی معیشت کے ساتھ کئی ہندوستانیوں کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب مقدس گائیں اور معاشرے کی عجیب و غریب روایات ان کے راستے میں حائل ہوجاتی ہیں، ایسی رسومات جنھیں ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے مگر وہ اس سے منہ نہیں موڑ سکتے۔

ہندوستان کی ایسی ہی عجیب و غریب اور انوکھی رسومات جو دمکتے ہندوستان کے نام پر کسی دھبے سے کم نہیں، ان میں سے کچھ ذیل میں دی گئی ہیں۔

آگ پر چلنا

جنوبی ہندوستان کے لوگ ٹھیمیٹی نامی فیسٹول کو برہنہ پاﺅں جلتی لکڑیوں پر چل کر مناتے ہیں، یہ آگ پر چلنا کسی ہندو دیوی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تو یہی وہ رسم ہے کہ جلدی میں اسے عبور کرنے کی بجائے لوگ کسی باغ میں چہل قدمی کے انداز میں جلتے کوئلوں پر چلتے نظر آتے ہیں۔ اس میں حصہ لینے والے افراد کو بعد میں اپنے جلے ہوئے پیروں کا علاج کرنا پڑتا ہے اور کئی بار تو شدید یا بدترین زخموں کی وجہ سے وہ معذوری کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔

کھونٹے پر لٹکنا

تھوکم نامی فیسٹیول میں ہندو تیز دھار ہکس یا کھونٹوں پر اپنے جسموں کے بل لٹک جاتے ہیں اور پھر انہیں رسیوں کی مدد سے زمین سے اوپر اٹھا کر فضا میں لٹکا دیا جاتا ہے، جنوبی ہندوستان میں ہونے والے اس میلے پر ہندوستانی حکومت نے انسانی حقوق کے اداروں کے دباﺅ پر پابندی لگا دی تھی مگر اب بھی اس رسم کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔

بُل فائٹنگ

اسپین کے مقابلے میں ہندوستانی بُل فائٹنگ یا جلّی کٹو بغیر کسی رسی یا ہتھیار کے ہوتی ہے، جبکہ بیل کو بھی مقابلے کے بعد مارا نہیں جاتا کیونکہ ہندوﺅں کے لیے وہ مقدس جو ہوتا ہے، جنوبی ہندوستان میں کاشتکاری کے میلے کے موقع پر اس کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ ہندوستان کا خطرناک ترین کھیل بھی مانا جاتا ہے جس میں نوجوان سمیت ہر عمر کے افراد پورے جوش و خروش سے حصہ لیتے تھے تاہم سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد اس پر سپریم کورٹ میں پابندی کی درخواست عائد کی گئی جو تاحال زیر سماعت ہے۔

بالوں کی تجارت

ہندوستان میں منائے جانے والے کئی مذہبی تہواروں میں لوگ اپنے بال منڈواتے ہیں، بعد میں عقیدت مندوں کے یہ بال دیگر ملکوں کو برآمد کر دیے جاتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان بالوں کی برآمد میں دنیا میں سرفہرست ملک بن گیا ہے۔ مختلف ہندوستانی مندروں سے ٹنوں کے حساب سے بال ہول سیلرز کو فروخت کیے جاتے ہیں، اس سے مندروں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس سے بہت سے سماجی کام اب بغیر کسی رکاوٹ کے سر انجام پاتے ہیں۔ ایک کلو بالوں کی قیمت 250 ڈالر ہے جبکہ آج سے 15 سال پہلے ایک کلو بال 20 ڈالر میں فروخت ہوتے تھے۔

بیواﺅں کو جلانا

صدیوں سے ہندوﺅں میں شوہر کی موت کے بعد اس کی بیوی کو زندہ جلا دینے کی رسم جسے ‘ستی’ بھی کہا جاتا ہے موجود ہے، اس پر برطانوی سامراج نے 1859 پر پابندی لگا دی تھی مگر اب بھی ہندوستان کے مختلف حصوں میں اس پر عمل کیا جاتا ہے حالانکہ موجودہ ہندوستانی حکومت کی جانب سے اس کو ادا کرنے پر سخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔

بچوں کو بلندی سے اچھالنا

ہر سال دسمبر میں ریاست کرناٹک میں ایک مندر میں ایک سو سے زائد بچوں کو چھت سے نیچے اچھالا جاتا ہے، 200 فٹ بلندی سے نیچے پھینکے جانے والے بچوں کو پکڑنے کے لیے مردوں کا ایک گروپ کپڑوں کا جال لیے کھڑا ہوتا ہے، اس انوکھی رسم کی وجہ شادی شدہ جوڑوں کی جانب سے خوشحالی کے ساتھ مزید بچوں کی خواہش ہوتی ہے اور وہ پورے جوش و خروش سے اس میں حصہ لیتے ہیں، ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس رسم سے بچے کی صحت اچھی ہوتی ہے اور خاندان کی قسمت کھل جاتی ہے۔

فوڈ رولنگ

کرناٹک کے کچھ مندروں میں جانے کا موقع ملے تو آپ کو روک کر نیچے لیٹنے اور فرش پر رول یا گھومنے کا حکم دیا جائے گا، ان گھومتے ہوئے جسموں کو ایسی غذا کے ڈھیر پر رول ہونا پڑتا ہے جو برہمن پھینک دیتے ہیں اور یہ برہمنوں سے نچلی ذاتوں پر فرض ہے کہ وہ یہ رسم ادا کریں کیونکہ اس سے ان کے خیال میں جلدی امراض کا علاج ہوتا ہے۔

مرغیوں سے جادو کرنا

ہندوازم میں کسی پر جادو کرنا روایات کا حصہ ہے، اس مقصد کے لیے جو ایک طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہے وہ سفید مرغی کو کاٹنا ہوتا ہے جس کے بعد مرغی کے ٹکڑے اس جنتر منتر کرنے والے عامل کے گھر کے پاس پھینک دیے جاتے ہیں، جس شخص پر جھاڑپھونک کی جاتی ہے اس سے مختلف سوالات کیے جاتے ہیں اور شیطانی اثر سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ شیطان یا بدروحیں سفید مرغیوں سے ڈرتی ہیں۔

زبان کو چھیدنا

لمبی اور تیز سوئیوں کے ذریعے زبان کو چھیدا جاتا ہے یہ سوئیاں عام طور پر لکڑی یا اسٹیل سے بنائی جاتی ہیں اور یہ اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ زبان چھیدنے کے بعد منہ سے بھی باہر نکل جاتی ہے، ایسا انوکھا کام ہندوستان کے متعدد میلوں میں ہوتا ہے اور عام طور پر اس کی وجہ شادی کی خواہش ہوتی ہے۔

لڑکیوں کی نسل کشی

یہ سماجی برائی دنیا کے کئی ممالک میں ہے مگر اس میں سرفہرست ہندوستان ہی ہے جہاں لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور لڑکیوں کو پیدائش سے قبل ماں کے پیٹ میں ختم کروا دیا اتا ہے، کئی بار تو پیدائش کے بعد بھی ان ننھی پریوں کو ہلاک کردیا جاتا ہے، دلچسپ یا افسوسناک امر یہ ہے کہ اس روایت پر انیسویں صدی سے پابندی عائد ہے مگر اس کی روک تھام نہیں ہوسکی ہے۔ (شکریہ ڈان نیوز)

اپنا تبصرہ بھیجیں