327

⁨پاکستان میں سعودی ولی عہد کی آمد سمندر پار پاکستانیوں کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ؟

سعودی پرنس محمد بن سلمان کی پاکستان میں آمد سے جہاں پاکستانی قوم کو خوشی ہوئی ہے وہاں سمندر پار پاکستانی جو روزگار کے سلسلے میں عرب ممالک میں مقیم  ہیں انکی امیدیں بھی جاگ گئی ہیں۔ ہمارے لاکھوں کی تعداد میں لوگ عرب ممالک میں موجود ہیں،  ان میں سے زیادہ تر ایجنٹوں کے ذریعے کمیشن دے کر جاتے ہیں، جبکہ تھوڑی تعداد میں لوگ اپنے تجربے اور قابلیت کی وجہ سے بھی جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپکو پتا ہے  وہاں یورپ کی طرح جموریت تو ہوتی نہیں ہے کہ ورکر کو حقوق دے جائیں وہاں کے کفیل پاکستانی وڈیروں سے بھی ظالم ہوتے ہیں وہاں کئی کئی مہینے تو کمپنیاں تنخواہ نہیں دیتیں اور کئی لوگ جیلوں میں پڑے ہوتے ہیں۔ 

ہر حکومت کا کام ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے بندوں کا خیال رکھے جو روزگار کے سلسلے میں باہر جاتے ہیں۔ پہلے تو پاکستانی حکومتوں نے آج تک اپنے ہی  پیسے اور کاروبار کے بارے سوچا اور ہم لوگ بے یارو مدد گار ہوتے رہے۔ اب تو تبدیلی آئی ہے تو ہمارے وزیراعظم کے پاس سنہری موقع ہے کہ جو سمندر پار پاکستانی باہر ہیں اور پاکستان میں سالانہ اربوں درہم ،ریال ،دینار، یا پاؤنڈ بھیجتے ہیں انکے حقوق دلوانے میں انکی مدد کی جائے۔ پاکستان سے ایک بیٹا باہر آتا ہے اور وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر والوں کو خوشیاں دیتا ہے، کیونکہ وہ پردیس میں آتے ہوئے بہت سے لوگوں کے خوابوں کی تعبیر بننے کیلئے گھر سے نکلتا ہے، کسی نے بہن کی شادی کرنی ہوتی ہے تو کسی نے مکان بنانا ہوتا ہے اور کسی نے ماں باپ کا سہارا بننا ہوتا ہے یہ ایک خطرناک کھیل ہوتا ہے، لیکن پاکستانی جوان اچھے مستقبل کی امید پر تمام تکالیف سہتے ہیں اور پاکستان پیسے بھیجتے ہیں۔

اس میں کئی ماں باپ کی امیدوں پہ تو اس وقت پانی پھر جاتا ہے، ایجنٹ ان کے بیٹوں کو ایئرپورٹ پر ہی چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم نے صرف ویزے کیلئے  پیسے لئے تھے آگے ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے، ان میں سے بہت کم بندے ہوتے ہیں جو آگ میں جل کر کندن بنتے ہیں، اور حالات کا مقابلہ کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم جس وجہ سے یہاں آئے تھے وہ خواب پورے کرنے ہیں لیکن بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو برائی کے راستے پہ نکل پڑتے ہیں۔ انکا ٹھکانہ جیل یا نشہ ہی ہوتا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ ہماری غربت اور ہماری حکومت کی بے حسی ہوتی ہے۔

عرب ممالک میں انڈیا کے لوگوں کو پاکستان سے زیادہ عزت دی جاتی ہے جبکہ یورپ میں بھی یہی حال ہے لیکن یورپ میں جمہوریت ہے جبکہ عرب ممالک میں بادشاہت ہے تو عربوں میں مزدور  طبقے پر ظلم زیادہ ہوتا ہے۔  پیچھے بیوی بچے اکیلی زندگی گزارے ہیں بارہ سالوں میں وہ ایک سال ہی فیملی کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ ہمارے ہی علاقے کا ایک بندہ دبئی گیا اور بعد میں بچی پیدا ہوگئی چار سال بعد واپس آیا تو بچی دروازے پہ آئی ماں نے پوچھا کون آیا ہے تو بچی کہنے لگی امی ڈاکٹر آیا ہے میں نے ٹیکہ نہیں لگوانا مجھے آج تک وہ بچی اور اسکی ماں اور ہماری ہنسی نہیں بھولتی۔ ہم کہتے تھے کہ عورت اپنا گھر بار چھوڑ کے سسرال جاتی ہے تو مشکل ہوتا ہے لیکن جو مڈل کلاس طبقہ عرب میں یا یورپ میں آتا ہے انکی  تکلیفوں کے آگے تو سسرال کی تکلیف جنت ہے۔ اور پیچھے سے بچے جوان ہو جاتے ہیں باپ گھر واپس چلے جاتے ہیں عرب ممالک تو پینشن ہی نہیں دیتے تو وہ بندہ بچارہ اپنی ہی بیوی بچوں میں ایڈ جیسٹ نہیں ہو پاتا کیونکہ وہ انکے لئے اجنبی ہو کے رہ جاتا ہے وہ ایک چلے ہوئے کارتوس کی طرح خالی ہاتھ کبھی ایک اولاد کے گھر تو کبھی دوسری کے گھر زندگی کے دن پورے کرتا ہے۔
ہماری حکومت سے التجا ہے کہ ان سمندر پار پاکستانیوں کی فریاد سنی جائے اور انکے حق کیلئے کچھ اقدام کئے جائیں !

اپنا تبصرہ بھیجیں