281

شاہکار

وہ اپنے خلوت کدے میں ایک انجمن سجائے ہوئے تھا۔ جہاں وہ تنہا ہونے کے باوجود بھی تنہا نہیں تھا۔ اس کو اپنے خلوت کدے میں طرح طرح کے تجربات کرنے کا شوق تھا۔ وہ بہت سی تخلیقات کرچکا تھا لیکن اب وہ ایک شاہکار تخلیق کرنا چاہتاتھا۔ ایک ایسی تخلیق جو پہلی تخلیقات سے فزوں تر ہوگی۔ لیکن وہ اپنی دیگر تخلیقات کو کسی بھی طرح تلف بھی نہیں کرنا چاہتا تھا آخر وہ کرتا بھی تو کیسے ؟ کیا کبھی کوئی ماں سیاہ بچہ جننے کے بعد اس کو موت کے گھاٹ اس لیے اتار دیتی ہے کہ وہ بدصورت ہے لہذا اس نے اپنی ایک پہلی تخلیق جس کو اس نے گریفائٹ کا نام دیا تھا جو کوئلے کی کوک سے نکلا تھا ، اس میں ترمیم کرکے اس کو; ایک خوبصورت اور سب سے بہترین سانچے میں ڈھالا۔ وہ سانچہ اب سے پہلے کسی بھی تخلیق کے لیے استعمال نہ کیا گیا تھا ، اس نے خود اس سانچے کی خوبصورت الفاظ میں تعریف کی۔ وہ سانچہ لکڑی کا تھا جس میں گریفائٹ کو سمو دیا گیا تھا۔

وہ اپنی اس شاہکار تخلیق سے بے پناہ مطمئن تھا اور یہ وہ واحد تخلیق تھی جس کو اس نے کلی اختیار سے نوازا تھا۔ اس سے پہلے جتنی بھی تخلیقات تھیں وہ سب کی سب اس کی مرضی کے تابع تھیں ۔ لیکن اس تخلیق کو مکمل اختیار تھا کہ خواہ وہ تخلیق کار کے قصیدے پڑھے یا ہجو کرے۔

اس اختیار کے ساتھ ہی اس نے اپنے اس شاہکار کو; پینسل ; کے نام سے نوازا۔ اب اس پینسل کو اس کے مکمل اختیارات سے باور کروادیا گیا اور یوں اس کی زندگی کے سفر کا آغاز ہوا۔ اس پینسل نے اپنے خالق کے قصیدے لکھنے شروع کردیے ۔ قصیدے لکھتے لکھتے اک دن اسے یوں محسوس ہوا گویا کسی نے اسے بہت زور سے دھکا دیا ہو اور اس کے ساتھ ہی وہ پینسل گرگئی۔ اس نے ہمت کرکے جب اٹھنے کی کوشش کی اور مر کر دیکھا تو دیکھا کہ اس کے قصیدے کے چند الفاظ اس کے گرنے کی وجہ سے خراب ہوگئے تھے

وہ اشک بار آنکھوں سے ان الفاظ کو دیکھتا اور اک نظر اپنے خالق کو دیکھتا۔

تخلیق کار اس واقعے سے مکمل طور پر آگاہ تھا لہذا اس نے متبسم ہوکر اس کا حل کیا۔ اس نے اپنے خلوت کدے میں ایک اور تخلیق کو جنم دیا جس کا کام پینسل کی غلطیوں کو مٹانا تھا ۔ اس نے اپنی اس تخلیق کو ; ربڑ کا نام دیا۔ ربڑ، پینسل کے پاس گیا اور اس سے ہم کلام ہوکر بولا:

“غم نہ کر ، ہمارے خالق نے مجھے تمہارے لیے ہی بھیجا ہے اس کے بعد اس نے پینسل کو حوصلہ دیا اور اس کی غلطی کو مٹا دیا ۔ جب پینسل نے دیکھا کہ اس کی غلطی مٹ چکی ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا ۔ بالکل ویسی خوشی جوں ایک کافر کے لیے جنت کا اعلان کردیا گیا ہو۔

اب دوبارہ وہ پینسل اپنے کام پر مامور ہوگئی ، لیکن اس کے دل میں اک خیال آیا کہ کیا اس کی غلطی کو بس ایک بار ہی مٹانے کے لیے اس ربڑ کو بھیجا گیا تھا یا دوبارہ غلطی پر بھی وہ ربڑ اس کا ساتھ دے گا ؟ انھی خیالات کے ساتھ اس نے جان بوجھ کر اپنے تخلیق کار کو آزمانے کے لیے غلطی کی۔ غلطی کے بعد وہ دوبارہ اشک بار آنکھوں سے اپنے خالق کو دیکھتا اور ایک نظر اپنی غلطی کو ۔; باوجودیکہ اس کا تخلیق کار اس بات سے بھی آگاہ تھا اس نے متبسم ہوکر ربڑ کو حکم دیا اور پینسل کی غلطی کو مٹا دیا گیا۔

پینسل کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس کو اس بات کی تسلی ہوگئی کہ اس کی غلطی پر اس کا ساتھ دینے کے لیے ربڑ اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ چناںچہ وہ اب پہلے کی نسبت بہت تیز رفتار سے لکھتی ، اتنی رفتار پکڑنے کی وجہ سے وہ بار بار گرتی ، بار بار غلطی سرزد ہوتی لیکن ربڑ اس کا برابر ساتھ دیتا رہا ۔

ایک دن پینسل اسی خوش فہمی میں تھی کہ اس کی غلطی ربڑ مٹا دے گا اور پہلے کی طرح دوبارہ اس کو موقع دے دیا جائے گا ، اس خوش فہمی کے ساتھ جب اس نے لاپرواہ ہوکر غلطی کی اور گر گئی تو ربڑ نے مٹانے کی بہت کوشش کی لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ربڑ مٹا مٹا کر خود ختم ہوچکا تھا۔ اس کی طبعی موت واقع ہوچکی تھی۔ اس حرکت کے بعد، وہ اشک بار آنکھوں سے ایک بار اپنے خالق کو دیکھتی اور ایک بار اپنی غلطی کو ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں