ںئی دہلی — پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں انہوں دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ مذاکرات شروع کرنے کی اپیل کی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق عمران خان نے اپنے خطاب میں رواں ماہ کے اواخر میں نیویارک میں منعقد ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کےک موقع پر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کے درمیان میٹنگ پر بھی زور دیا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے ایک مختصر ٹوئٹر بیان میں مذکورہ مکتوب کی تصدیق کی ہے۔
محمد فیصل نے کہا ہے کہ عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم کو مثبت پیرائے میں جواب دیا ہے۔ انھوں نے تمام معاملات کو بات چیت سے حل کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ “ہمیں بھارت کی طرف سے مثبت جواب کا انتظار ہے۔”
یاد رہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 20 اگست کو عمران خان کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں پاکستان کے وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنے پر مبارک باد دی گئی تھی۔
اپنے اس خط میں نریندر مودی نے دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان بامعنی اور تعمیری مذاکرات پر زور دیا تھا۔
بھارتی ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم مودی نے اپنے خط میں کہا تھا کہ بھارت اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ پرامن تعلقات کے عہد کا پابند ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ عمران خان کا حالیہ خط ان کے بھارتی ہم منصب مودی کے سابقہ مکتوب کے جواب میں ہے۔
عام انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے خواہاں ہیں اور مذاکرات کی مدد سے تمام تصفیہ طلب امور کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
مسئلۂ کشمیر کے بارے میں انھوں نے کہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک میز پر بیٹھیں اور اس مسئلے پر بات چیت کریں۔
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان کے بھارتی ہم منصب کے نام اس مکتوب کو پاکستان کی جانب سے تعلقات میں بہتری کی جانب سے باضابطہ پہل سمجھا جاسکتا ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم کے اس بیان کے باوجود کہ دونوں ملکوں میں بامعنی اور تعمیری مذاکرات ہونے چاہئیں، بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔
نئی دہلی کا الزام رہا ہے کہ سرحد پار سے بھارت مخالف دہشت گردی جاری ہے۔
بھارتی وزیرِ دفاع نرملا سیتا رمن اور وزیرِ مملکت برائے خارجہ جنرل وی کے سنگھ نے حال ہی میں اپنے بیانات میں کہا تھا کہ پاکستان میں نئی حکومت آنے کے باوجود صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
دونوں بھارتی وزرا نے الزام عائد کیا تھا کہ سرحد پر اب بھی سیز فائر کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور پاکستانی علاقے سے در انداز بھارتی سرحد کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان بھارت کے ایسے الزامات کو سختی سے مسترد کرتا آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
پاکستان بھی سرحد پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام بھارت پر عائد کرتا رہتا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کا جو مؤقف اختیار کر رکھا ہے وہ 2019ء میں بھارت میں ہونے والے انتخابات کی وجہ سے ہے۔