240

دانش فروشی اور آزادی صحافت ۔

دانش فروشی ایک ایسا گناہ ہے جو عصمت فروشی سے بھی بدتر ہے۔ یہ بات بزرگ صحافی محمد رفیق ڈوگر نے اپنی آپ بیتی’’ڈوگرنامہ‘‘ میں لکھی ہے۔ ڈوگر صاحب کا یہ جملہ ایسے دانشوروں اور صحافیوں کے بارے میں ہے جو اقتدار کی آغوش کے متلاشی رہتے ہیں اور سرکاری عہدے حاصل کرنے کے لئے اپنی عقل و دانش پر’’برائے فروخت‘‘ کا بورڈ لگادیتے ہیں۔ 

ڈوگر صاحب لکھتے ہیں کہ ایسے دانش فروش پیشہ ور عصمت فروشوں سے زیادہ خطرناک اس لئے ہوتے ہیں کہ عصمت فروش عورتیں صرف برائی پھیلاتی ہیں جبکہ دانش فروش تباہی پھیلاتے ہیں۔ محمد رفیق ڈوگر صاحب پرانے صحافی ہیں۔ ان کی کتاب میں ایسے واقعات شامل ہیں جو آج کے صحافیوں کے لئے سبق ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آغا شورش کاشمیری اور حبیب جالب میں شدید نظریاتی اختلاف تھا لیکن جب کسی نظریاتی مخالف پر مشکل آن پڑتی تو نظریاتی اختلافات بھلا د ئیے جاتے تھے ۔ ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزتی کردی۔  کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔ قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔ پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لئے مجھے جیل بھیج دو۔ 
پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔ مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑگیا، گورنر نے تھانے میں فون کیا لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکارکردیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔ اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے’’شورش نے میری عزت بچالی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘
محمد رفیق ڈوگر کی آپ بیتی میں اس زمانے کی تاریخ محفوظ ہے جب صحافی اور دانشور ریاستی جبر کے خلاف ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔ آج کل ریاستی ادارے حریت فکر کے متوالے صحافیوں اور دانشوروں کو پولیس سے نہیں پٹواتے بلکہ نامعلوم افراد سے پٹواتے ہیں اور اگر کوئی راہ راست پر نہ آئے تو پھر اپنے تربیت یافتہ صحافیوں اور دانش فروشوں کو متوالوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دانش کے خریداروں میں سیاسی گاہک بھی ہیں اور غیر سیاسی گاہک بھی ہیں۔ منگل کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں بلال ڈار نے میڈیا میں غیر ذمہ دارانہ رجحانات پر گفتگو کے لئے سینئر صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کو دعوت دی۔ یہاں بہت اہم باتیں ہوئیں۔ 
صحافت میں 55سال پورے کرنے والے ایم ضیاء الدین صاحب نے کہا کہ میڈیا دراصل ایک’’پبلک سروس ا نڈسٹری‘‘ لیکن اس انڈسٹری کو صرف منافع کمانے والی کارپوریشنوں کے طور پر چلانا ٹھیک نہیں۔ اس انڈسٹری میں ایسے لوگ بھی آرہے ہیں جو اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے اخبار یا ٹی وی چینل شروع کرتے ہیں اور پھر ان چھاتہ برداروں کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں جو ریٹائرڈ بیوروکریٹ، ریٹائرڈ فوجی افسر، ناکام ڈاکٹر یا ناکام ایکٹر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے’’پیراٹروپرز‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ 
نیشنل پریس کلب میں ہونے والے مباحثے میں ’’پیراٹروپرز‘‘ کا ذکر بھی آیا اور ’’دانش فروشوں‘‘کا ذکر بھی آیا جو صحافت کو سیڑھی بنا کر سرکاری عہدے حاصل کرتے ہیں اور سرکاری عہدے سے فارغ ہو کر آسانی کے ساتھ واپس صحافت میں آجاتے ہیں۔ اس مباحثے میں یہ تجاویز سامنے آئیں کہ جو صحافی یا اینکر سرکاری عہدہ حاصل کرے وہ اس عہدے سے ہٹنے کے بعد کم از کم دو سال تک صحافت میں واپس نہ آئے اور کوئی صحافتی تنظیم اسے اپنی رکنیت نہ دے۔ 
سرکاری عہدے پر بیٹھا ہوا شخص کالم بھی لکھتا ہے اور ٹی وی پروگرام بھی کرتا ہے اس سلسلے میں پیمرا، اے پی این ایس، پی بی اے اور پی ایف یو جے کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ سرکاری عہدہ اور صحافت ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں؟ آپ ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو کافی عرصے سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ اسمبلی کے رکن بھی بن چکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کالم بھی لکھتے ہیں اور ٹی وی پر بطور تجزیہ نگار بھی جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ سیاست کے ساتھ ساتھ کالم لکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ صاحبان صحافت کے استاد بن کر ہمیں یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ میڈیا کو جو آج آزادی حاصل ہے وہ کسی نے اپنے زوربازو یا چینی انقلاب جیسی جدوجہد سے حاصل نہیں کی بلکہ یہ آزادی جنرل پرویز مشرف نے طشتری میں رکھ کر آپ کو دی۔ 
یہ ایک ایسا افسانہ ہےجو وہی پیش کرسکتا ہے جسے جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان ٹیلی ویژن پر میزبان بننے کا موقع دیا گیا تھا۔ حقائق بالکل مختلف ہیں، تمام کارکن صحافی آزادی صحافت کے لئے اپنے بزرگوں کی جدوجہد سے آگا ہ ہیں، اگر یہ جدوجہد افسانہ ہے تو پھر ضمیر نیازی کی کتابPRESS IN CHAINS اور احفاظ ا لرحمان کی کتاب’’آزادی صحافت سب سے بڑی جنگ‘‘ کو سمندر برد کردینا چاہئے۔ پی ایف یو جے کی تاریخ جنرل ایوب خان کے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس کے خلاف جدوجہد سے شروع ہوتی ہے اور 2007میں جنرل پرویز مشرف کی پابندیوں کے خلاف تین ماہ تک جاری رہنے والی تحریک میں ثابت قدمی کا روشن مینار بن جاتی ہے جس میں احمد فراز اور منہاج برنا بیماری کے باوجود شامل ہوئے۔ یہ بالکل غلط ہے کہ مشرف نے میڈیا کو آزاد کیا اور مشرف نے سب سے پہلے پرائیویٹ میڈیا کو کام کرنے کی اجازت دی۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں سی این این اور بی بی سی کی نشریات پاکستان میں شروع کرائیں۔ ان کے دوسرے دور میں پہلے پرائیویٹ ریڈیو چینل کو اجازت ملی اور پہلے پرائیویٹ ٹی وی چینل پر کام شروع ہوا لیکن کچھ ادارے پرائیویٹ چینلز کو قومی سلامتی کے منافی سمجھتے تھے۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی باقاعدہ اجازت کے لئے تمام پیپر ورک مکمل تھا لیکن کچھ اداروں کے اعتراضات حائل تھے۔ 12اکتوبر 1999کی فوجی بغاوت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ جس طرح بھارت میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے کارگل کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا اسی طرح کے کردار کے لئے پاکستان میں بھی ٹی وی چینلز کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
 پیپر ورک مکمل تھا لیکن مشرف حکومت نے محدود آزادی کے ساتھ دو ٹی وی چینلز کو کام کرنے کی ا جازت دی۔ میں نے 2002میں جیو ٹی وی کو جوائن کیا تو مشرف حکومت نے مجھے اس چینل سے دور رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ حکومت کے ایک سینئر افسر نے مجھے پی ٹی وی کا عہدہ آفر کیا لیکن میں نے انکار کیا۔ آج کل مذکورہ افسر ریٹائرمنٹ کے بعد ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل میں کام کررہے ہیں۔ 
مشرف دور میں شروع ہونے والے ٹی وی چینلز کے ٹرانسمیشن سینٹر پاکستان سے باہر تھے کیونکہ آزادی نہیں تھی۔ان چینلز کے ٹرانسمیشن سینٹر 2008کے بعد پاکستان میں آئے۔ نومبر 2007میں مشرف نے الیکٹرانک میڈیا پر بدترین پابندیاں لگائیں۔ مشرف کے دور میں پرائیویٹ چینلز کا باقاعدہ اجراء ضرور ہوا لیکن یہ کچھ ریاستی اداروں کی ضرورت تھی اور اسی ضرورت کے تحت پچھلے دس سال میں افغانستان میں بھی پچاس سے زائد ٹی وی چینلز شروع ہوئے۔ جہاں تک آزادی کا تعلق ہے تو پاکستان کا میڈیا نہ کل آزاد تھا نہ آج آزاد ہے، میڈیا کے شہیدوں کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے لیکن آزادی صحافت کی منزل ابھی بہت دور ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں