217

پاکستان کو لاحق اصل خطرہ۔

ہر تخلیق بامقصد ہوا کرتی ہے. جب تخلیق اپنا مقصد کھو بیٹھتی ہے تو دراصل وہ اپنی وجہ جواز کھو بیٹھتی ہے. اور کوئی بھی شے تب تک قائم رہتی ہے جب تک اسکی وجہ جواز قائم رہے. یہ تاریخ اور فلسفہِ تاریخ کا ایک بنیادی اصول اور حقیقت ہے. تاریخ شاہد ہے کہ تہذیبیں اِسی اصول کے تحت اٹھیں اور مٹ گئیں. تاریخ رومی، فارسی، عثمانی اور یو ایس ایس آر جیسی عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال کی داستانوں پر گواہ ہے. جب عام لوگوں کی تکلیفیں بڑھنے لگیں اور اشرافیہ کا ظلم گھٹن پیدا کرنے لگے تو زوال کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔


کچھ لوگوں کا کہنا یا سمجھنا یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کی قوتِ محرکہ برِ صغیر کے مسلمانوں کی زبوں حال اقتصادی حالت تھی. جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا یا سمجھنا یہ ہے کہ ہندوؤں کی سیاسی اجارہ داری اور بد نیتی نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھنے پر مجبور کیا. ایک اور نقطہِ نظر یہ ہے کہ (جو کہ علامہ اقبال کا نقطہِ نظر ہے) مسلمانانِ برِصغیر کے لیے پاکستان کی صورت میں ایک ایسے وطن کا قیام تقدیرِ مبرم یا اللہ کی تدبیر کا حصہ تھا کہ جس میں مسلمانانِ پاکستان اپنی سیاسی، معاشی اور معاشرتی شناخت کا اظہار اجتماعی سطح پر کر سکیں. میں تحریکِ پاکستان کی قوتِ محرکہ کے ضمن میں اختیار کیے گئے پہلے دونوں دلائل سے اختلاف رکھتا ہوں کہ اگرچہ یہ دونوں عوامل بھی تحریکِ پاکستان کے اہم عناصر میں شامل ہیں لیکن محض انہی دو عوامل کو تحریک کی بنیاد اور اساس سمجھنا درست نہیں۔ لیکن یہاں میں تحریکِ پاکستان میں کارفرما محض سیاسی اور معاشی استدلال کو رد کرنے کے لیے کسی بھی طرح کے منطقی یا تاریخی جواب یا استدلال سے احتراز کروں گا ورنہ مضمون طوالت اختیار کر جائے گا۔

محض اتنا ہی کہنے پر اکتفا کروں گا کہ میری نظر میں یہ سیاسی اور معاشی عوامل ایک بڑے کُل کا جزو ہیں. اگر ہم محض اِن دو عوامل کو ہی اصل عوامل سمجھ بیٹھیں تو یہ حقائق کا بہت ہی سطحی تجزیہ ہو گا۔میں بعض اوقات حیران ہوتا ہوں ایسے تجزیہ کاروں کی سطحیت پر کہ جب وہ مسلمانوں کی سیاسی اور معاشی حالت کو تحریکِ پاکستان کا حوالہ بناتے ہیں تو سیاسی یا معاشی حالت کے ساتھ جُڑے لفظ “مسلمان” اور اُس سے وابستہ شناخت کیسے یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں. اس کی وجہ کج فہمی یا علمی و فکری بددیانتی کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتی۔
لیکن اوپر بیان کیے گئے تینوں نقطہ ہائے نظر میں ایک چیز مشترک ہے۔ اِس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ لوگوں نے تحریکِ پاکستان میں جو قربانیاں دیں اور جدوجہد کی وہ ایک فلاحی ریاست کے حصول کے لیے تھیں۔جہاں ریاست برابری کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ اور اُن کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی ذمہ دار ہو گی. قوم کے رہنما (محمد علی جناح) اور مصور (علامہ اقبال) نے ایک ایسی عوامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا جو پوری مسلم امہ اور دیگر اقوامِ عالم کے لیے روشنی کا مینارہ ثابت ہو گی۔ ستر برس بیت گئے لیکن وہ خواب ابھی تک تعبیر کے انتظار میں ہے۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

پہلے عمرانی معاہدے آئینِ پاکستان کو قانون ساز اسمبلی سے قبولیت حاصل کرنے میں 9 سال لگے. سیاسی قیادت کی کمزوریوں اور درپردہ سازشوں کے بندھن نے اس ملک کو پہلے آٹھ سال میں چار وزرائے اعظم اور چار سربراہانِ مملکت نصیب کیے. عوام دشمن قوتوں نے ابتدائی گیارہ برس اس ملک میں جمہوری قدروں اور جڑوں کو نہ پروان چڑھنے دیا اور نہ ہی مضبوط ہونے کا موقع دیا. یہ غیر جمہوری اور عوام دشمن قوتیں پس منظر سے پیش منظر میں 1958 میں تب آئیں جب جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور دو سال کے نومولود بچے (آئینِ پاکستان) کو زندہ دفن کر دیا. پہلے عمرانی معاہدے سے بغاوت اور آئین شکنی کی اس واردات میں عدلیہ اور نوکر شاہی (Bureaucracy) نے آمرِ وقت کا کھل کر ساتھ دیا۔نتیجتاً ایک غیر مقدس تکون (Troika) وجود میں آئی. اس غیر مقدس اتحاد کا ساتھ دینے والی مذہبی اور سیاسی قوتوں کی حیثیت شطرنج کے اس کھیل میں مہروں سے زیادہ کچھ نہ تھی. مذہبی اور سیاسی قوتوں کی حیثیت مہروں سے زیادہ اس لیے نہ تھی کہ قومی منظر نامے میں پالیسی سازی میں نہ انہیں کوئی اختیار حاصل تھا اور نہ ہی کسی قسم کی حصہ داری. انفرادی مفادات کے عوض انہوں نے اجتماعی قومی ذمہ داری سے سبکدوشی اختیار کی. اس غیر مقدس اتحاد نے سیاست کے ادارے کو ملاوٹ زرہ کر کے کمزور کیا. اُن سیاستدانوں کو نوازا گیا جنھوں نے اِس اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا.اِس اسٹیٹس کو کے لیے خطرہ محسوس ہونے والی کسی بھی ہوشمند اور دانشمند آواز کو بے رحمی سے کچلا گیا. مفادات اور اختیار کے اس کھیل میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حیثیت بادشاہ کی تھی۔

بانیِ پاکستان کی بہن (فاطمہ جناح) اس اسٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کی پہلی قومی آواز بن کر کھڑی ہوئیں. تاریخ گواہ ہے کہ جو اُن کے ساتھ ہوا. اُن پر ملک دشمن قوتوں کی ایجنٹ کا الزام لگایا گیا. غیر مقدس اتحاد کی طاقت عوامی طاقت سے جیت گئی اور فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان کے ہاتھوں الیکشن میں شکست کا چہرہ دکھایا گیا. گذشتہ ستر برس میں ایک بھی وزیراعظم ایسا نہیں آیا جسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی گئی ہو، سوائے ایک کے. اور بعد میں اسے بھی عوام میں اپنی مقبولیت کی قیمت پھانسی کے پھندے پر جھول کر ادا کرنا پڑی. پاکستان جدید دنیا میں اِس لحاظ سے ایک منفرد ملک ہے جہاں تین وزرائے اعظم کو اپنی عوامی مقبولیت کی قیمت اپنی موت سے ادا کرنا پڑی. چوتھا وزیراعظم اپنے خاندان سمیت مثال بنائے جانے کے مرحلے سے دوچار ہے (اگر وہ اپنی ہَٹ پر قائم رہا).

بانیانِ پاکستان نے جمہور اور عوامی حقِ خود ارادیت کو اِس ملک کے نظامِ حکومت کا بنیادی عنصر قرار دیا تھا. اگر ابتدا سے آج تک جمہور کی رائے اور حق کو بے وقعت سمجھ کر ہمیشہ شخصی یا اداراتی مفادات کے قدموں تلے روندا جاتا رہا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ملک ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس کی روح قبض کر لی گئی ہو. اگر اِس ملک کی تخلیق کا مقصد ایک فلاحی اسلامی ریاست تعبیر کیا گیا تھا تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہم ایک ایسی ریاست کے ساکن ہیں جو اپنی اساس کھو چکی. اور میں اوپر بیان کر آیا ہوں کہ کوئی بھی شے تب تک قائم رہتی ہے جب تک اُس کی وجہ جواز قائم رہے. سانحہِ مشرقی پاکستان سے ہماری آنکھیں نہیں کھلیں. موجودہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات کی زبوں حالی ہمیں چیخ چیخ کر آنے والی آفت کی نشاندہی کر رہے ہیں. اگر لوگوں کو اُن کے بنیادی انسانی حقوق اور حقِ خود ارادیت سے مزید محروم رکھا گیا تو اتحاد، ایمان اور تنظیم کی گرہ کھلنے کے مکمل اسباب موجود ہیں۔ (شکریہ مکالمہ ڈاٹ کام)
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں