305

⁨پاکستانی قانون امیر اور سیاست دانوں کی جاگیر !⁩

تبدیلی کی ہوا چلی تھی اور  پردیس میں رہتے ہوئے ایک آس سی لگ گئی تھی کہ پاکستان میں اس دفعہ تبدیلی ضرور آئے گی۔ یہاں انصاف کا سورج طلوع ہوگا امیر غریب کے لئے ایک ہی قانون ہوگا، ایک جیسی تعلیم ہوگی جو یہاں یورپ میں آکر دیکھا دل کرتا تھا کہ کبھی ہمارا ملک بھی ایسا ہی ہوگا۔تحریک انصاف جیت گئی اور جب  نوازشریف جیسے امیر لوگ بھی  قانون کی گرفت میں آنے لگے تو ایسا لگا کہ پاکستان میں بھی قانون مضبوط ہو رہا ہے۔ہم نقل کرنے کے تو ماہر ہیں خواہ وہ فیشن ہو یا کسی کی زبان فوراَ نقل کر لیتے ہیں لیکن نجانے کیوں ہم قانون اور تعلیم میں کسی کی نقل نہیں کرتے، کاش اگر ان چیزوں میں نقل کر سکتے تو آج پاکستان کا نام بھی ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں موجود ہونا تھا۔
ہم نے  مذہب کا کارڈ کھیلنا ہو تو کتنی آسانی سے اگلے کو کافر بنا دیتے ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں بے انتہا ضمیرفروشی اور بےایمانی ہورہی ہے، اس پر ہم نے چپ سادھی ہوئی ہے۔ آج بہت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ جس جج صاحب نے نوازشریف کی سزا معطل  کی ہے، اسکا تعلق کس مذہب سے جوڑا جائے۔ کیا یہ جج صاحب کسی غریب کو یہ سہولت دے سکیں گے۔غریب کا کیس بن جائے تو اسکو مجرم  یا بے گناہ ثابت کرتے کرتے اتنا وقت لگتا ہے کہ ایک دادا کے کیس کا فیصلہ اسکے پوتے کے زمانے میں سنایا جاتا ہے، جبکہ دادا اور باپ فوت ہو چکے ہوتے ہیں فیصلے کا انتظار کرتے کرتے گھر بک جاتے ہیں، جائیدادیں بک جاتی ہیں اور اگر انصاف نہ ملے تو ایک غیرت مند آدمی لوگوں کے طعنوں اور اپنے ساتھ ہوئی نا انصافی کی وجہ سے خود ہی انتقام لینے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور پھر ساری زندگی جیل میں گزرتی ہے ۔ایسے کئی نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں کئی بچے لاوارث ہو جاتے ہیں۔
میرا سوال ہے جج صاحب کیا آپکو تعلیم کے دوران سیکھایا جاتا ہے کہ صرف پیسا بنانا ہے، اور امیروں کا کیس لڑنا ہے۔ جو جتنے امیر بندوں کا جج ہوگا وہ اتنا ہی قابل ہوگا اللہ تعالی کی عدالت بھی ہے جہاں انصاف ضرور ہوتا ہے۔کیا ماڈل ٹاون والے انسان نہیں تھے کیا پاکستانی عوام انسان نہیں ہیں؟ اگر  آپ صرف امیروں کے لئے ہی جج بنے ہیں تو  اپنے قانون میں ترمیم کر دیں کہ اس کالے قانونی جالے میں صرف غریب ہی پھنسے گا۔
دنیا کا کوئی ملک اسوقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ اسکے اندر ہر کام انصاف سے ہونا شروع نہ ہو جائے، لیکن پاکستان میں بےایمانی کی الٹی گنگا دہائیوں سے بہتی چلی آرہی ہے۔ مان لیتے ہیں بھٹو صاحب بے قصور تھے، ایک پڑھے لکھے لیڈر تھے، انکے ساتھ غلط ہوا تھا، لیکن انکی سزا پر سیاست چمکا کر کئی زرداریوں نے اپنے نام تک بدل ڈالے، اور زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کا نعرہ لگا کر کرپشن کے ریکارڈ بنا ڈالے۔ انکی دفعہ قانون اندھا ہو جاتا ہے جبکہ غریب انسان ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں اور انکا کوئی نام ہی نہیں لیتا۔ اب زرداری صاحب کی بیٹیوں کی بھی جدھر شادی ہو گی وہ بھی بھٹو بن جائیں گے اور بھٹو کے نام پہ ووٹ لیں گے ۔خدا کا خوف کرو کوئی اپنی قابلیت بناؤ کب تک زرداری بھٹو اور مریم نواز بنتے رہو گے؟؟
ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے، لیکن ہماری جہالت آسمان کو چھو رہی ہے، ہم کیسے انسان ہیں جنکی قسمت کا فیصلہ کرپٹ سیاسی اشرافیہ کرتی ہے، اور ہم آنکھیں بند کر کے انکے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ امیر  انسان تو اچھا اور مہنگا وکیل کر لیتا ہے، جج بہت آرام سے خرید لیتا ہے لیکن غریب کے پاس تو کرایہ تک نہیں ہوتا، وہ کیا کرے؟؟  سیاست دان  قانون کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ عوام ساری زندگی انکی اور انکی آنے والی نسلوں کے جلسوں میں تالیاں بجاتی رہی ہے اور بجاتی رہے گی، اور یہ حکمران اور  جج  پاکستان کا کا قانون صرف کمزور اور غریب طبقے پر لاگو کرتے رہیں گے۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں