315

دیسی مائیں اور نسل پرستی؟

اِس بات پہ تمام دُنیا کے ماہرین ِ تعلیم و تربیت متفق ہیں کہ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے ۔ مشہور سیاسی شخصیت نیلسن منڈیلا کا کہنا ہے کہ بچے محبت سے اور محبت لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔اُن کو نفرت سب سے پہلے ماں باپ سکھاتے ہیں ، پھر سکول اور پھر معاشرہ ۔ یورپ میں مقیم والدین کے مسائل مشرق میں مقیم والدین سے قدرے مختلف ہیں لیکن مشرق کی طرح یہاں بھی تربیت کا فرق نہایت نمایاں ہے ۔ زیادہ تر والدین نے بچوں کی تربیت پہ جیسی توجہ دی اُن کو ویسے ہی نتائج ملے ۔ کچھ بچے مذہبی انتہا پسند بن گئے کچھ لادینی انتہا پسند بن گئے ۔ کچھ درمیانی کیفیت میں بڑے ہوئے۔ کچھ بچے انسانیت کا بہترین نمونہ بنے ۔کچھ بچے ماں باپ کی کم علمی اور بے توجہی سے جرائم کے راستے پہ چل نکلے ۔ کچھ فیصد نتائج تربیت کے اُلٹ بھی ہیں لیکن خواہش کرنےاور تربیت میں عملی حصہ لینے میں بہت فرق ہے ۔ یہاں پہ ماں باپ کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ اُن کی معاشی مصروفیات ہیں۔ 

یورپ کا مہنگا رہن سہن اور آبائی ممالک سے ساتھ لایا ہوا زیادہ کمانے کا بنیادی محرک والدین کو دن رات مصروف رکھتا ہے ۔دوسرا بڑا محرک والدین کے آبائی ممالک کا کلچر ہے جو آپس میں خاندانی سطح سے لے کر ذات پات اور موجودہ یورپی ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ تیسری دُنیا کے ممالک میں ہر خاندان کا ایک الگ الگ کلیدی کلچر ہے ۔ہر انسان مختلف عادات اور رہن سہن رکھتا ہے۔ دیکھنے میں ایک علاقے میں سب کی اچھی بُری عادات ایک جیسی لگتی ہیں لیکن اسکا فرق دو میاں بیوی کے خاندانوں کا موازانہ کرنےکے درمیان نمایاں ہوتا ہے ۔ بچوں کی تربیت میں سب سےپہلا تضادیہیں سے شروع ہوتا ہے ۔ اگر ماں باپ میں خود بہت سی محرومیاں یا تعلیم و تربیت کا فقدان ہو تو یہ تضاد بچوں پہ اولین منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور بڑھتے بڑھتے شخصی نفرت کو اُجاگر کر دیتا ہے ۔اس بات پہ بھی دُنیا کے تمام ماہرین متفق ہیں کہ بچے زیادہ تر ماں کی عادات کو اپناتے ہیں ۔یہاں تک کہ یہودی بچے تو صرف یہودی ماں کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں ۔
کوئی اور شخص مذہب تبدیل کرکے یہودی نہیں بن سکتا ۔ دُنیا کے تمام قانون ، کتابیں اور معاشرے ماں کوباپ سے زیادہ عزت اور حمایت دیتے ہیں ۔اس لئے ماں ہی محبت یا نفرت کا پہلا مدرسہ بنتی ہے ۔سب سے پہلے اپنے اپنے خاندان کو بہتر سمجھنے اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کا مقابلہ بچے کو سکھایا جاتا ہے ۔جیسے انڈین معاشرے میں ، چندا ماموں ہوتا ہے چندا چاچونہیں ہوتا ۔اُوپر سے بھائیوں کے تعلقات بھی اکثر آپس میں جائیداد وغیرہ کی تقسیم میں کشیدہ ہوجاتے ہیں ۔ ماؤں کو مزید موقع مل جاتا ہے نفرت سکھانے کا ۔ یورپ میں طلاق دوسرے معاشروں کی نسبت کافی زیادہ ہے ۔ اس لئے یہاں کے معاشروں نے بچوں کی بہتری کیلئے اپنی انسانی و اخلاقی اقدار ، خواندگی اور طلاق کے قوانین میں خاطر خواہ تبدیلیاں کر لی ہیں ۔ لیکن تیسری دُنیا سے آنے والے باشندوں خصوصاً انڈو پاک معاشرے کے لوگوں پہ یہ تبدیلیاں بہت گراں گزرتی ہیں ۔اکثر نے کئی نسلیں یہاں رہ کر بھی اُن اقدار کو نہیں اپنایا ۔ مغربی معاشرے میں طلاق زندگیوں میں امن لانے کیلئے اور بچوں کو میاں بیوی کی ذاتی لڑائیوں سے بچانے کیلئے لی جاتی ہیں ۔ طلاق کے بعدبھی دونوں ماں باپ بچے کی تربیت میں اپنے اپنے گھر سے برابر کا حصہ لیتے ہیں ۔ جس میں قانون اور معاشرہ دونوں ماں باپ کی پوری پوری مددکرتا ہے ۔
مشرقی یا دیسی معاشرے میں گھروں میں بچے ماں باپ اور سب جوائنٹ فیملی کی آپس کی لڑائیوں کے عادی ہو کر خود بھی ویسے ہی عمل دوہراتے ہیں ۔ طلاق کی صورت میں تو بچوں کو مستقل ماں سےیا باپ سےاور اُسکے پورے خاندان سے کاٹ کرمحبت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ دو بہنوں یا بھائیوں کی کشیدگی کی صورت میں بھی یہی کیا جاتا ہے ۔بچوں کی محبت سے محرومی ایک طرف ، بلکہ اُن کو نفرت سکھائی جاتی ہے ۔اس نفرت کی ابتدا علیحدگی یا طلاق سے بہت پہلے ہی کر دی جاتی ہے ۔مائیں معاشرتی حمایت ، بچوں کی زیادہ قربت اوراُن پہ ذاتی اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے نفرت سکھانےمیں موثر کردار ادا کرتی ہیں ۔ جبکہ اکثر یورپی ماں باپ ایسا ہر گز نہیں کرتے ۔وہ بچوں کی ہر خوشی میں برابر کا حصہ لیتے ہیں اور علیحدہ ہونے والے فریق کی عزت سکھا کربچوں کو اُس سے ملنے اورمحبت حاصل کرنے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں ۔ 
 ذاتی اور متعدہ دوستوں کے طویل المدت مشاہدے سے یہ تلخ حقیقت موجود ہے کہ دیسی ماؤں کی اکژیت نے بچوں کو اُن کے باپ سے مکمل طور پہ کاٹ دیاہے ۔ اُن بچوں کے یہاں پیدا ہونے یا سکول جانے سےکوئی فرق نہیں پڑا ۔ وہ دیسی معاشرے کی نفرت کے یہاں رہ کر بھی عادی بن گئے ہیں ۔جیسے کچھ بچے ماں باپ کی لاپرواہی کی وجہ سے دہشت گردوں کے ٹولے میں شامل ہو کر دُنیا کے جنگوں میں مبتلا ممالک میں چلے گئے ۔ اِن دیسی والدین خصوصاً ماؤں اور بچوں کی شرواعات سے ہی تربیت کی اَشد ضرورت ہے کہ وہ معاشرے کو نفرت اور انتہا پسند نسل پرستی سے بچائیں ۔ورنہ قوانین غیر ملکی لوگوں کیلئے مزید سخت ہوتے جائیں گے اور نسل پرست سیاسی جماعتوں کو زیادہ فروغ ملے گا ۔
اِس سلسلے میں حکومتی سطح پہ تربیت گاہوںمیں اُن ماؤں اور بچوں کی لازمی تربیت کیلئے قوانین بنانے پڑیں گے ۔ ڈنمارک اور ناروے اِن مسائل کے حل میں سویڈن سے بہت آگے جا چکے ہیں ۔ غیر ملکی اپنی ہی مذہبی اور معاشرتی خرابیوں کو جاری رکھ کر نسل پرستی کو بڑھاتے ہوئے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی مستقبل قریب میں مزیدتنگ کررہے ہیں ۔جبکہ اُن کا مطالبہ ہے وہ مقامی لوگوں سے نسل پرستی کا شکار ہیں ۔ جب تک وہ اپنی اندرونی نسل پرستی نہیں چھوڑیں گے وہ یہاں کے معاشرے سے مزیدکٹتے جائیں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں