194

کیا ہم دو خاندانوں کا مالِ غنیمت ہیں؟

چند سال پہلے ملتان میں انجینئر نگ اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک یونیورسٹی قائم کی گئی ۔ کیا آپ جانتے ہیں اس یونیورسٹی کو کس عظیم سائنسدان کے نام سے منسوب کیا گیا ؟ دل تھام لیجیے اور سر پیٹ لیجیے ، اس عظیم سائنسدان کا نام میاں محمد نواز شریف ہے۔ اس یونیورسٹی کو اب نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کہا جا تا ہے۔

اسی سال ملتان ہی میں ایک زرعی یونیورسٹی قائم ہوئی ۔ ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس یونیورسٹی کو زرعی شعبے کے کس ماہر سے منسوب کیا جائے۔ بہت غور کر نے کے بعد یہ سب اس نتیجے پر پہنچے کہ زراعت کے شعبے میں ایک ہی محقق پیدا ہوا ہے جس نے سیم اور تھور کی ماری زمینوں میں بیانیہ اگایا تھا ۔ اس کا نام میاں نواز شریف ہے ۔ چنانچہ اس عظیم سائنسدان کی خدمات کی اعتراف میں اس یونیورسٹی کو اب نواز شریف یونیورسٹی آف ایگریکلچر کہتے ہیں۔

ملتان ہی میں ایک اور یونیورسٹی ہے جو حضرت بہاوالدین زکریا ؒ سے منسوب ہے ۔ اس یونیورسٹی کا لیہ میں سب کیمپس بنایا گیا۔ اسے بہادر کیمپس کہتے ہیں۔ میں ایک عرصہ یہی سمجھتا رہا کہ یہ کوئی بزرگ ہوں گے یا شاید حضرت بہاولدین زکریا ؒ کے خلیفہ ہوں جن سے لیہ کیمپس منسوب کیا گیا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ یہ تو مسلم لیگ ن کے ایم پی اے مہر اعجاز احمد اچھلانہ کے والد محترم کا نام ہے ۔ یونیورسٹی میں ایک آڈیٹوریم ہے وہ ایم پی اے صاحب کی علمی اور فکری خدمات کے صلے میں ان سے منسوب کر دیا گیاہے اسے اب مہر اعجاز احمد اچھلانہ آ ڈیٹوریم کہا جاتا ہے ۔ لڑکوں کے ایک ہاسٹل کا نام بھی ایم پی اے صاحب کے نام پر اعجاز ہال رکھ دیا گیا ہے ۔ ان کی اہلیہ کا نام ریحانہ ہے چنانچہ ایک گرلز ہاسٹل کو اب ریحانہ ہال کہتے ہیں ۔

ملتان ہی میں ایک سرکاری ہسپتال ہے ۔ قومی خزانے سے اس کی تعمیر ہوئی ۔ زمین حکومت کی تھی ۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اس کا نظم و نسق چلتا ہے۔ لیکن اس کا نام شہباز شریف جنرل ہسپتال ہے۔ اپنی جیب سے انہوں نے چار آنے نہیں لگائے لیکن ہسپتال کا نام شہباز شریف ہسپتال رکھ لیا ۔

سیالکوٹ میں ایک ڈ ٖگری کالج قائم کیا گیا ۔ یہ لڑکیوں کا کالج تھا ۔ ان کے ویژن کو داد دیجیے انہوں نے اس کالج کو بھی نہیں بخشا اور اس کا نام میاں نواز شریف گرلز ڈگری کالج سیالکوٹ رکھ دیا گیا ۔ منڈی بہاولدین میں بھی ایک گرلز کالج کا نام نواز شریف گرلز کالج ہے۔

سیالکوٹ ہی میں ایک اور کالج قائم کیا گیا ۔ اس کا نام گورنمنٹ شہباز شریف ڈگری کالج جامکے چیمہ سیالکوٹ ہے۔ اسی شہر میں ایک میڈیکل کالج بھی ہے ۔ اس کا نام خواجہ صفدر میڈیکل کالج ہے۔ خواجہ صفدر خواجہ آصف کے والد محترم کا نام ہے۔

چونا منڈی میں ایک کالج قائم ہوا۔ بہت غور ہوا کہ کوئی ایسا مقامی آدمی ہو جس نے شہر کے لیے کوئی علمی اور فکری خدمات انجام دی ہوں۔ لیکن ایسا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ عمائدین شہر ہاتھ جوڑ کر حاضر ہوئے اور عرض کی کہ فکری خدمات تو بہت سے لوگووں کی ہیں لیکن ان میں سے کسی کے پاس بھی بیانیہ نہیں تھا۔ ایک ہی رجل رشید ہے جس کے پاس بیانیہ ہے۔ چنانچہ پنجاب حکومت نے اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے کالج کا نام نواز شریف ڈگری کالج رکھ دیا ۔

سرگودھا میں بھی ایک کالج تعمیر کیا گیا اسے نواز شریف ڈگری کالج سرگودھا کہا جاتا ہے۔

گجرات میں ایک میڈیکل کالج بنا یا گیا ۔ بہت غور ہوا کہ وہ کون سا ماہر ڈاکٹر ہے جس کے نام پر کالج کو نام رکھا جائے۔ تھکا دینے والی تحقیق کے بعد پتا چلا کہ ملک میں ایک ہی قابل ڈاکٹر ہے اور اس کے پاس انجکشن کے ساتھ ساتھ ایک عدد بیانیہ بھی ہے ۔ چنانچہ اس کالج کو اب نواز شریف میڈیکل کالج گجرات کہا جاتا ہے ۔

راولپنڈی میں خیابان سر سید میں ایک ڈگری کالج بنایا گیا ۔ 18کنال زمین حکومت پنجاب نے دی ۔ لیکن نام کیا رکھا گیا ؟ شہباز شریف ڈگری کالج خیابان سر سید ۔ راولپنڈی ہی میں مری روڈ پر ایک پارک ہے ، اسے نواز شریف پارک کہتے ہیں ۔ راول روڈ پر ایک کمپلیکس بنایا گیا ہے ۔ کسی نے جیب سے ایک روپیہ نہیں خرچ کیا ۔ حکومت پنجاب نے اس کے لیے 90 کنال زمین مختص کی اور اس پر 87 ملین کی لاگت کا تخمینہ ہے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے اس کمپلیکس کا نام کیا ہے؟ شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس ۔

قصور میں بھی ایک سپورٹس کمپلیکس قائم کیا گیا ہے۔ وہاں بھی شاید کوئی ایسا کھلاڑی نہ تھا جس سے یہ کمپلیکس منسوب کیا جاتا ۔ چنانچہ اس کا نام بھی شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس رکھ دیا گیا ۔ ان کی ذہنی سطح دیکھیے پبلک ٹوائلتس تک کے باہر لگے بینرز پر خادم اعلی تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ خود نمائی کا اتنا شوق ہے کہ اخباری اشتہارات میں خوبصورت نظر آنے کے لیے مائیکل ریوینز کے دھڑ پر خادم صاحب کا سر لگا دیا گیا تا کہ وہ ہینڈ سم نظر آئیں ۔ چوری پکڑی گئی تو کہا تحقیقات کر رہے ہیں ۔ تحقیقات کے نتائج آج تک کسی کو معلوم نہیں ۔

ملک میں ایک ہسپتال اس قابل نہیں جہاں سے یہ علاج کروا سکیں ۔ علاج کے لیے لندن بھاگ جاتے ہیں ۔ لیکن ہسپتالوں پر اپنے نام کی تختیاں لگانے کا بڑا شوق ہے۔ نواز شریف ہسپتال یکی گیٹ لاہور، شہباز شریف جنرل ہسپتال ملتان ، نواز شریف سیکیورٹی ہسپتال لاہور۔۔۔ معلوم نہیں ایسے اور کتنے ہسپتال ہوں گے ۔ سوچتا ہوں کہ سر گنگا رام اور گلاب دیوی تو بلاوجہ سے اپنے خرچے پر ہسپتال بنا کر گئے۔ ان کے پاس بھی اگر بیانیہ ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا اپنی تجوری سے پیسے خرچ کیے بغیر بھی ہسپتال اور ادارے اپنے نام سے بنائے جا سکتے ہیں ۔

جہلم میں ایک پل بنایا گیا ۔ جی ہاں وہی پل جو تعمیر ہونے سے پہلے سے ہی گر گیا تھا ۔ کیا آپ کو اس کا نام یاد ہے؟ شہباز شریف برج ۔ سیولکوٹ میں بھی ایک پل کو شہباز شریف سے منسوب کیا گیا ہے ۔

جن کا بھٹو ابھی تک زندہ ہے ان کی بھی سن لیجیے۔ جامشورو میں ایک میڈیکل کالج کا نام بلاول بھٹو زرداری میڈیکل کالج ہے۔ ایک شہر نواب شاہ ہوا کرتا تھا ۔ پرانے وقتوں میں سید نواب شاہ نے 200 ایکڑ زمین اس شہر کو دی تھی جس پر انگریز نے اس کا نام نواب شاہ رکھ دیا ۔ زرداری صاحب نے ایک مرلہ زمین دیے بغیر اس کا نام بدل کر بے نظیر آباد رکھ دیا ۔ اس بے نظیر آباد میں ایک کیڈٹ کالج ہے اس کا نام بختاور بھٹو کیڈٹ کالج ہے۔ اسی بے نظیر آباد میں ایک یونیورسٹی کا نام بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی رکھ دیا گیا ہے ۔ بے نظیر آباد ہی میں ایک ڈسٹرکٹ سکول کا نام بھی بے نظیر بھٹو سکول ہے اور اس کا افتتاح بھی بختاور بھٹو نے کیا تھا۔

اپر دیر میں بھی ایک شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی قائم ہے ۔ ایک شہید بے نظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور میں ہے۔ لاڑکانہ میں ایک یونیورسٹی کا نام شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی ہے۔ لاڑکانہ میں ایک شہید بے نظیر گرلز کالج ہے۔ ایک بے نظیر بھٹو ڈگری کالج کراچی میں ہے ۔

کراچی میں ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کی ایک یونیورسٹی قائم کی گئی ۔ حد تو یہ ہوئی کہ اس کا نام بھی شہید بے نظیر یونیورسٹی رکھ دیا گیا ۔ کراچی میں ایک یونیورسٹی کو شہید بے نظیر بھٹو سٹی یونیورسٹی اور دوسری کو شہید بے نظیر بھٹو دیوان یونیورسٹی کا نام دیا گیا ۔ راولپنڈی جنرل ہسپتال کا نیا نام بے نظیر بھٹو ہسپتال ہے ۔ لیاری میں قائم میڈیکل کالج کو شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج کہتے ہیں ۔ کراچی میں قائم اے این ایف ہسپتال کو بے نظیر بھٹو شہید اے این ایف ہسپتال کہا جاتا ہے ۔ بے نظیر بھٹو شہید ہیں اور قابل احترام ہیں لیکن کیا اس ملک میں وہی واحد شہید ہیں اور واحد قابل احترام ؟

کبھی حساب لگا لیجیے اس ملک قائد اعظم ، اقبال اور مادر ملت کے نام سے کتنے ادارے ہیں اور شریفوں اور بھٹوؤں کے نام سے کتنے ادارے ہیں ؟ یہ ملک ایک امانت ہے یا ان دو خاندانوں کی چراگاہ ؟ ہم مہذب دنیا کی ریاست کے باشندے ہیں یا ان دو خاندانوں کی جاگیر کے مویشی ؟ انہیں اپنے قائدین سے اتنی ہی محبت ہے تو قومی خزانے کے ساتھ واردات کرنے کی بجائے اپنی جیب سے ان کے نام سے ادارے کیوں نہیں بناتے؟ انہیں یہ غلط فہمی کب سے ہو گئی کہ ہم انہیں مال غنیمت میں ملے ہیں ؟

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں