209

میں نے ایک جنتی دیکھا۔

ہمارے محلے میں تقریباً 45 سال کے ایک آدمی، اُبال کر چَھّلی (یعنی سِتّہ) ہاتھ والی ریڑھی پر بیچنے آتے تھے۔ کمزور سا جسم، چھوٹا سا قد، کالا سیاہ رنگ، پیوند لگے پُرانے سے کپڑے پہنے ہوتے تھے۔ لیکن خود دار، محنتی، اور والہانہ محبت رکھنے والے شفیق انسان تھے۔

ایک دِن جون کی آگ برساتی گرمی میں دوپہر کے وقت گلی سے آواز آئی گرما گرم چھلیاں، گرما گرم اُبلی چھلیاں (سِتّے) لے لیں۔ میں گھر سے باہر چھلی لینے نکلا اور چھلی والے بڑے سے برتن میں سے خود اچھی سی چھّلی تلاش کرنے لگا۔ جو چھّلی مجھے سب سے زیادہ بڑی اور موتی لگی وُہ میں نے باہر نکالی تو دیکھا، کہ وہ ساری سِتّے کے جو اپنے بال ہوتے ہیں اُن سے بھری پڑی تھی۔ میں نے کہا چچا جی اِن کو اُبالنے سے پہلے اچھی طرح صاف تو کر لیا کریں یہ ساری بالوں سے بھری پڑی ہے۔

تو چچا جی فرمانے لگے کہ بیٹا اِس کے علاوہ کوئی چھلی بھی ایسی نہیں ہو گی جو صاف نہ ہو یا اُس پر کہی کوئی ایک بال بھی ہو۔ بس یہ ایک وُہی چھّلی ہے جو روزانہ میں برکت کے لیے اپنی بوڑھی ماں جی سے چھلکا اتروا کر سب چھّلیوں میں ڈال دِیتا ہوں۔ بیٹا میری ماں جی بہت ضیعف ہے وُہ جیسے بھی مجھے ایک چھّلی کا چھلکا اُتار کر دے دیں میں اپنے رِزق میں برکت کے لیے بغیر کسی صفائی، ستھرائی کے اُس چھّلی کو دوسری چھّلیوں میں رکھ دیتا ہوں۔ کیونکہ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنی ماں جی کی صاف کی گئی چھّلی میں سے نقص نکالوں یا خود اُس چھلی کی مزید خود صفائی کر کے ماں جی سے بہتر صاف کرنے کی جسارت یا کوشش کروں۔

یہ سب سُن کر میں اُس چچا جی کی اپنی ماں سے والہانہ محبت اور عقیدت پر رشک کرنے لگا۔ اور میرے ذہن میں فوراً ڈورنے لگا کہ چچا جی نے تو جنت خریدی لی ہے اپنی ماں جی سے والہانہ محبت اور عقیدت کے بدلے۔ اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میرے سامنے ایک جنتی انسان کھڑا مُسکرا کر باتیں کر رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ میرے ذہن میں چل رہا تھا کہ کتنا خوش نصیب ہے یہ آدمی کہ جس کے پاس دُنیاوی مال و دولت تو ہے نہیں کہ جس کا قیامت والے دِن اِس کو حساب دینا پڑے کہ دولت خود پر تو بےدریغ تُو خرچ کرتا رہا اور اپنا ہی بینک بیلنس بڑھاتا رہا۔ لیکن تمھارے پڑوس میں کوئی بھوکا سوتا رہا یا تمھارے عزیزو اقارب میں کسی کی بیٹی غربت کی وجہ سے بیاہی نہ جا سکتی تھی لیکن تُو نے اُس طرف دِھیان کیوں نہ دیا۔ لہذا میں چاچا جی کو کافی دیر تک دیکھتا رہا اور میرے ذہن میں باربار چچا جی کا اپنی ماں جی والہانہ محبت اور عقیدت کی وجہ سے جنتی ہونے کا یقین پختہ ہوتا چلا گیا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی اپنی ماں سے ایسی ہی والہانہ محبت اور عقیدت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p4 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں