Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
256

دینا جناح کون تھیں؟

یہ 14 اور 15 اگست 1919ءکی درمیانی شب تھی ۔

قائد اعظم محمد علی جناح اپنی اہلیہ رتن بائی کے ساتھ تھیٹر گئے ہوئے تھے کہ ڈرامہ کے دوران رتن بائی نے قائد کو مطلع کیا کہ وہ درد محسوس کررہی ہیں اور انھیں فوراً میٹرنٹی ہوم پہنچایا جائے۔ قائد نے ایسا ہی کیا اور اسی رات ان کے گھر ایک خوب صورت بچی نے جنم لیا جس کا نام دینا رکھا گیا۔

دینا ابھی ساڑھے نو برس کی ہوئی تھیں کہ ماں کے سائے سے محروم ہوگئیں۔

رتن بائی اپنی بیٹی کو اڈیار (مدراس) میں تھیوسیوفیکل اسکول میں داخل کروانا چاہتی تھیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مکمل معلومات بھی حاصل کرلی تھیں مگر قائد اعظم کی مداخلت کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا تھا۔

دینا جناح نے ابتدائی تعلیم بمبئی کے ایک کانوینٹ اسکول میں حاصل کی۔ دینا اگرچہ بیشتر اپنی نانی کے پاس رہتی تھیں اس کے باوجود محمد علی جناح نے دینا کی پرورش اور دیکھ بھال کے لیے ایک گورینس کو ملازم رکھا تھا جس کا نام اسٹیلا تھا۔ وہ بمبئی کی رہنے والی کیتھولک تھی۔ محمد علی جناح کی پیشہ ورانہ اور سیاسی مصروفیات کی بنا پر ان کو دینا کے ساتھ رہنے کے بہت کم مواقع ملتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود دینا اپنے والدین سے شدید محبت کرتی تھیں اور ان کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے والدین کے پاس ہی رہیں۔ وہ ہر سال گرمیوں میں اپنے والدین کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کشمیر جاتی تھیں جبکہ دو مرتبہ وہ اپنے والدین کے ہمراہ لندن بھی گئیں۔

رتی کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد 1930ء میں قائد اعظم ہندوستانی سیاست سے دل برداشتہ ہوکر انگلستان منتقل ہوگئے اور کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے دینا کو بھی لندن بلوالیا۔

لندن میں قائداعظم کی زندگی بڑی خاموش اور پرسکون تھی۔ جو بقول اسٹینلے وولپرٹ مشابہت میں قبر کی خاموشی سے کسی طرح کم نہ تھی۔ وہاں ان کا دل بہلانے والی صرف دینا تھی۔ لیکن وہ گھر سے دور بورڈنگ میں رہتی تھی اور کبھی کبھار چھٹیوں میں گھر آتی تھی۔ وہ سیاہ آنکھوں والی خوب صورت، نازک اور دلکش لڑکی تھی۔ وہ اپنی ماں کی طرح ہنستی تھی اور اپنے مخاطبین کی طرح شوخی یا تنک مزاجی سے کام لیتی تھی۔ وہ باپ کے لاڈ سے بگڑی ہوئی بیٹی تھی اس کے پاس دو کتے تھے ایک سیاہ رنگ کا دوبرمین اور دوسرا سفید رنگ کا ویسٹ ہائی لینڈ ٹیریئر۔

نومبر 1932ء میں قائداعظم نے کمال اتاترک کی زندگی پر ایچ سی آر مسٹرونگ کی کتاب گرے وولف پڑھی۔ کتاب ختم کرنے کے بعد انہوں نے کتاب دینا کو دی اور اس سے کہا ”لو بیٹی اسے پڑھو یہ بہت اچھی کتاب ہے“ اس کے بعد وہ کئی دن تک مسلسل کمال اتاترک کا ذکر کرتے رہے۔ دینا ان دنوں چھٹیاں گزارنے اسکول سے گھر آئی ہوئی تھی۔ قائداعظم نے دینا سے اس کتاب کا اتنا ذکر کیا کہ اس نے ان کا نام ہی گرے وولف رکھ دیا۔ ہر اتوار کو وہ بڑے پیار سے اپنے باپ کو مخاطب کرتی اور کہتی ”گرے وولف، مجھے ڈرامہ دکھانے لے چلیے۔ آخر میں بھی تو اپنی چھٹیاں منانے یہاں آئی ہوں“ اس کے بعد قائد اعظم کے لیے پس و پیش کی کوئی گنجائش نہیں رہتی تھی۔

دینا کو اپنی والدہ کی طرح سیر و تفریح اور سماجی تقریبات میں شرکت کرنے کا ازحد شوق تھا، قیام انگلستان کے دوران انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ اس میدان میں خاصی سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ قائداعظم کو دینا کے اخراجات کا گوشوارہ باقاعدگی کے ساتھ وصول ہوتا تھا قائداعظم زندگی کے تمام معاملات میں اصراف کے سخت مخالف تھے لیکن دینا کے بارے میں ان کا یہ رویہ بالکل جداگانہ تھا اور وہ ان کی سیر و تفریح، تھیٹر، سینما، قیمتی لباس اور دیگر تمام اخراجات خندہ پیشانی سے ادا کیا کرتے تھے۔

دینا چھٹی کے روز دوپہر اور رات کا کھانا اچھے سے اچھے ریستوران میں کھایا کرتی تھیں، بہترین ہوٹلوں میں قیام کرتی تھیں اور ایام تعطیلات میں کسی نہ کسی تھیٹر یا سینما گھر میں اعلیٰ ترین کلاس کا ٹکٹ خرید کر روز بلاناغہ شو دیکھا کرتی تھیں۔ مس فرانسس براﺅن نے 30 جنوری 1932ءکو دینا جناح کے اخراجات کی جو تفصیل قائداعظم کو ارسال کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے دسمبر 1935ءمیں ایک ہفتہ کی تعطیلات لندن میں گزاریں اور اس دوران ہر روز شام کو وہ مہنگا ترین ٹکٹ خرید کر سینما گھر یا تھیٹر میں جاتی رہیں، قائداعظم نے یہ تمام اخراجات بڑی فراخ دلی سے بغیر کسی اعتراض کے ادا کردیئے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قائداعظم اپنی اکلوتی بیٹی سے کس قدر محبت کرتے تھے۔

3ستمبر 1936ءکو مس فرانسس براﺅن نے قائداعظم کو ایک اور خط تحریر کیا جس میں انہوں نے مطلع کیا کہ وہ اپنی صحت کی خرابی اور ممکنہ آپریشن کی وجہ اسے اپنا اسکول بند کررہی ہیں۔ مس براﺅن نے لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ دینا اس خبر سے دلبرداشتہ ہوگی کیونکہ اسے اپنے اسکول سے بڑی محبت ہے۔ لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

اسی خط میں مس فرانسس براﺅن نے قائداعظم کو دینا کی ”پراگریس“ سے بھی مطلع کیا اور بتایا کہ وہ تاریخ اور انگریزی میں اچھی ہونے کے باوجود امتحان میں پاس نہیں ہوسکی ہے کیونکہ اس کی فرنچ، ریاضی اور نباتیات بہت کمزور ہے۔

اسی دوران1934 ءمیں قائداعظم واپس ہندوستان آگئے تھے ان کی واپسی سے پہلے ہی بمبئی کے مسلمانوں نے انہیں اپنی زندگی کے لیے مجلس قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب کرلیا تھا۔ چنانچہ واپس آتے ہی وہ سیاسی سرگرمیوں میں بری طرح مصروف ہوگئے اور ان کا اور محترمہ فاطمہ جناح کا زیادہ تر قیام دہلی میں رہنے لگا۔

1936ءمیں دینا کا اسکول بند ہوجانے اور دینا کے فیل ہوجانے کے باعث قائداعظم نے اسے ہندوستان واپس بلالیا…. قائداعظم نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر دینا کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اسے اس کی ننھیال میں چھوڑ دیا جائے۔ یہ فیصلہ اس حوالے سے تو بڑا اچھا ثابت ہوا کہ دینا کو ایک محبت سے بھرپور فضا میسر آگئی مگر اس حوالے سے بڑا نقصان دہ ثابت ہوا کہ وہ آہستہ آہستہ ایک سراسر غیر اسلامی ماحول میں ڈھل گئیں۔

سر ڈنشا پیٹٹ اور لیڈی پیٹٹ پارسیوں کے انتہائی معزز ارکان میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا خاندان بڑا آزاد خیال اور جدت پسند واقع ہوا تھا۔ دینا آہستہ آہستہ اس ماحول کے رنگ میں رنگتی چلی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ رفتہ رفتہ اسلام اور اس کے رسوم و رواج حتیٰ کہ اپنے والد کے اصولوں سے دور ہٹتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ اس نے ایک پارسی نژاد عیسائی شخص نیول واڈیا سے شادی کا فیصلہ کرلیا۔

جب قائداعظم کو اس صورت حال کا علم ہوا تو انہیں سخت فکر لاحق ہوئی۔ انہوں نے پہلے تو خود دینا کو اس روش پر چلنے سے روکنا چاہا۔ اسے سمجھایا، بجھایا، افہام و تفہیم سے کام لے کر اسے اپنے خیالات پر نظرثانی کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد انہوں نے مشہور مسلمان رہنما مولانا شوکت علی کے ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ دینا کو اسلام کے زریں اصولوں اور ان کی اہمیت سے روشناس کروائیں۔ مگر وہ بھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود دینا کے خیالات میں تبدیلی پیدا کرنے میں ناکام رہے۔

قائداعظم کے ایک دوست جسٹس ایم سی چھاگلہ نے اپنی سوانح حیات “ROSES IN DECEMBER” میں لکھا ہے کہ’

”جناح نے حسب معمول اپنے نادر شاہی انداز میں دینا سے کہا ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکے موجود ہیں اور وہ جسے پسند کرے اسی کے ساتھ اس کی شادی کردی جائے گی“ اس پر دینا نے جو حاضر جوابی میں اپنے باپ سے بڑھ کر تھی، برجستہ کہا ”ابا جان! ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکیاں موجود تھیں، آپ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی کیوں نہیں کی تھی؟“

دینا نے اپنی شادی کے ایک طویل عرصے بعد اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ :

”پاپا نے میری بات سکون سے سننے کے بعد انتہائی متانت سے جواب دیا ”میری پیاری بیٹی، تمہاری ممی نے بھی مجھ کو منتخب کرنے کے بعد اپنے ڈیڈی سے شادی کی اجازت طلب کی تھی جو انہوں نے بطبیب خاطر دے دی تھی۔ میں بھی تمہیں اس کی خوشی کے ساتھ اجازت دوں گا لیکن شرط ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا ہونے والا شوہر اسلام قبول کرلے تاکہ تمہارا نکاح اسلام کی شرط کے مطابق ہوسکے۔“ پھر پاپا نے نہایت شفقت سے مجھے متاہل زندگی کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ مذہبی عقائد میں ہم آہنگی سے ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے میں بہت مدد ملتی ہے“۔

”پاپا نے یہ سب باتیں کسی قسم کے جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہایت پرسکون لہجے میں کہیں۔ مجھے خوب معلوم تھا کہ پاپا کا ایک ایک لفظ معنی رکھتا ہے۔ میں نے دل میں کہاکہ یہ میری زندگی کا پہلا فیصلہ کن مرحلہ ہے، میں نے پاپا سے وعدہ کیا کہ میں اپنے شوہر کے اسلام قبول کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گی اور اگر ضرورت پڑی تو اس سلسلے میں پایا کی رہنمائی بھی حاصل کروں گی“۔

”جب میں نے مسٹر واڈیا سے شادی سے پہلے اسلام قبول کرنے کے متعلق کہا تو انہوں نے ایسا کرنے سے صاف صاف انکار کردیا۔ اب میرے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو میں اپنے باپ کی خواہشات کے مطابق مسٹر واڈیا سے شادی کرنے سے انکار کردوں یا مسٹر واڈیا سے شادی کرکے باپ کی ناراضی مول لے لوں۔ میں نے دل میں کہا، واڈیا سے شادی کرلینی چاہیے باپ آخر باپ ہے چند دن، مہینے، ہفتے یا زیادہ سے زیادہ چند ماہ ناراض رہنے کے بعد خود بخود مان جائیں گے چنانچہ میں نے ایک دن پاپا کو اپنے اس ارادے سے مطلع کردیا“۔

میری باتیں سننے کے بعد پاپا نے برف کی سی ٹھنڈک کے ساتھ مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ”بیٹی، تم جانتی ہو کہ تمہارے سوا میری اور کوئی اولاد نہیں۔ مجھے تم سے جتنی محبت ہے اس کا اندازہ لگانا تمہارے لیے ممکن نہیں۔ میرا بیٹا بھی کوئی نہیں اس لیے لے دے کے زندگی میں تم ہی میری آرزوﺅں اور تمناﺅں کا مرکز ہو لیکن اب تم بالغ ہو۔ میں تمہارے فیصلے میں حارج ہونا پسند نہیں کرتا۔ اب تم میرا فیصلہ بھی سن لو اگر تم نے جان بوجھ کر برضا ورغبت ایک غیر مسلم سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو تم شرع محمدی کے مطابق مسلمان نہیں رہ سکتیں۔ تم مرتد قرار پاﺅگی۔ اسلام خون کے رشتوں کو قبول نہیں کرتا اس لیے اس کے بعد تم میری اصطلاحی بیٹی تو شاید کہلا سکو۔ لیکن درحقیقت تم میری بیٹی اور میں تمہارا باپ نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اس فیصلے کے بعد جونہی تم میرے گھر کی چہار دیواری سے باہر پاﺅں رکھوگی تمہارے اور میرے درمیان تمام تعلقات منقطع متصور ہوں گے“۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد پاپا نے قدرے جذباتی لہجے میں کہا ”کاش میں تمہیں تمہارے فیصلے سے باز رکھ سکتا۔ کاش، تمہیں معلوم ہوتا کہ میرے سینے میں باپ کے دل کی جس کی ایک ہی بیٹی ہو کیفیت کیا ہے، لیکن میں اسلامی احکام کے آگے اپنے آپ کو بے بس اور لاچار پاتا ہوں“ یہ کہہ کر پاپا گردن جھکائے ہوئے میری سسکیوں کے درمیان اپنے بیڈ روم میں چلے گئے۔

جب میرے پاپا مجھ سے یہ گفتگو کررہے تھے تو میں یوں محسوس کررہی تھی کہ اس وقت وہ پاپا نہیں تھے جن کے گلے سے لپٹ کر میں خر خر کیا کرتی تھی۔ ان کی آنکھیں، ان کا چہرہ کسی اور ہی دنیا کے نظر آتے تھے۔

دینا نے اسلام ترک کردیا اور15 نومبر1938ءکو نیول واڈیا سے شادی کرلی۔ قائداعظم نے اس شادی میں شرکت نہیں کی مگر اپنی بیٹی کی زندگی کے اس اہم دن پر اسے گلدستہ بھیجنا نہیں بھولے۔ انہوں نے اسے یہ گلدستہ اپنے ڈرائیور عبدالحئی کے ذریعے بھجوایا تھا۔

قائداعظم کے بیشتر سوانح نگاروں نے جن میں اسٹینلے وولپرٹ تک شامل ہیں یہ لکھا کہ قائداعظم نے شادی کے بعد اپنی لاڈلی بیٹی سے کبھی گفتگو نہیں کی…. بعض مصنّفین نے یہاں تک لکھا کہ جب قائداعظم شدید علیل ہوئے اور ان کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو دینا نے باپ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ مگر قائداعظم نے اس ملاقات کی بھی اجازت نہ دی۔ اس طرح وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور زندگی کی آخری سانس تک وہ دینا کی اور دینا ان کی شکل نہ دیکھ سکی۔ مگر حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔

30 مئی1939 ءکو قائداعظم نے اپنا آخری وصیت نامہ تحریر کیا۔اس وصیت نامے کی پہلی شق تھی ، یہ میرا آخری وصیت نامہ ہے۔ میں اپنے دیگر وصیت نامے منسوخ کرتا ہوں۔ دوسری شق میں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح، سولسٹر محمد علی چائے والا اور نوابزادہ لیاقت علی خان کو اس وصیت نامے کا موصی، عامل اور ٹرسٹی مقرر کیا۔ اس وصیت نامے کی شق نمبر10 میں واضح طور پر تحریر تھا کہ:

”میں اپنے عاملین کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ200000روپے (دو لاکھ یا دو سو ہزار) مختص کردیں جن سے 6 فی صد کے حساب سے 1000 روپے ، ایک ہزار روپے آمدنی ہوگی اور وہ اس سے جو بھی آمدنی ہو ہر ماہ میری بیٹی کو تاحیات ادا کریں اور اس کی وفات کے بعد دو لاکھ کی مذکورہ رقم اس کے بچوں، لڑکے یا لڑکیوں میں برابر تقسیم کردیں اور بے اولاد ہونے کی صورت میں وہ رقم میری بقیہ جائیداد کا حصہ شمار ہوگی“

قائداعظم نے اپنی وصیت میں واضح طور پر اپنی بیٹی کو اپنی جائیداد کے ایک حصے کو وارث قرار دیا مگر اس کے باوجود چند برس تک وہ اپنی بیٹی سے ملنے میں متامل رہے۔ جبکہ دینا مسلسل کوشش کرتی رہیں کہ ان کے تعلقات ان کے عظیم والد سے دوبارہ استوار ہوجائیں۔ اپریل 1941ءمیں قائداعظم مدراس میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے دوران بیمار ہوگئے۔ یہ خبر دینا کو ملی تو اس نے فوری طور پر ایک ٹیلی گرا م کے ذریعے اپنے والد کی خیریت دریافت کی۔ ٹیلی گرام کی عبارت ےہ تھی:

M A JINNAH PRESIDENT MUSLIM LEAGUE MADRAS MUCH CONCERNED YOUR HEALTH ANXIOUS LOVE DINBAI.

یہ ٹیلی گرام حکومت پاکستان کے نیشنل آرکائیوز ڈپارٹمنٹ میں آج بھی محفوظ ہے۔

1943ءکے لگ بھگ دینا اور ان کے شوہر نیول واڈیا میں علیحدگی ہوگئی، اس وقت تک دینا دو بچوں، بیٹی ڈائنا اور بیٹے نصلی کی ماں بن چکی تھیں۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد قائداعظم اور ان کی بیٹی میں ایک مرتبہ پھر روابط استوار ہوگئے، گو اب ان میں پہلی جیسی گرم جوشی موجود نہ تھی۔

دینا اپنی ایک یادداشت میں تحریر کرتی ہیں:

”میرے والد اگرچہ اپنے جذبات کو چھپانے والے شخص تھے لیکن وہ ایک محبت کرنے والے باپ تھے۔ میری ان سے آخری ملاقات 1946ءمیں بمبئی میں ہوئی۔ وہ نئی دہلی سے آئے تھے۔ جہاں وہ انتہائی اہم مذاکرات میں مصروف رہے تھے۔ انہوں نے مجھے فون کیا اور مجھے اور میرے بچوں کو چائے پر مدعو کیا۔ وہ ہم سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ اس وقت میری بیٹی ڈائنا پانچ برس کی اور بیٹا نصلی دو برس کا تھا۔ وہ تمام وقت بچوں اور سیاست کے بارے میں بولتے رہے۔ انہوں نے مجھ سے کہاکہ پاکستان ناگزیر ہے۔ وہ دہلی میں انتہائی مصروف وقت گزار کر آئے تھے مگر ہمارے لیے تحفے خریدنا نہیں بھولے تھے۔ جب ہم ان سے رخصت ہونے لگے تو وہ نصلی کو بازوﺅں میں جکڑنے کے لیے جھکے۔ ان کی سرمئی ٹوپی، جو وہ اب اکثر پہننے لگے تھے اور جو انہی کے نام کی نسبت سے جناح کیپ کہلانے لگی تھی، نصلی کے ہاتھ میں آگئی۔ میرے والد نے اگلے ہی لمحے وہ ٹوپی نصلی کے سر پر رکھ دی اور بولے ”میرے بچے! یہ تمہاری ہوئی“۔ نصلی یہ تحفہ پاکر بہت خوش ہوا۔ مجھے یہ واقعہ اس لیے ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس سے میرے والد کی وہ بے کراں محبت ظاہر ہوتی ہے جو ان کے دل میں میرے اور میرے بچوں کے لیے تھی۔

میرے والد کے کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ وہ بہت متکبر تھے۔ یہ غلط ہے۔ دراصل وہ جیسے کو تیسا کے قائل تھے۔ وہ میری طرح ایک بہت نجی شخص تھے۔ اصولوں کی خاطر وہ اپنا سر ہمیشہ اونچا رکھتے تھے۔ وہ خود سے اور دوسروں سے عوامی یا ذاتی زندگی میں کبھی جھوٹ بھی نہیں بولتے تھے۔ جب لوگ ان کے بارے میں غلط سلط باتیں کرتے ہیں تو مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ ایسے لوگ جو ان سے کبھی ملے تک نہیں وہ بھی میرے اور میرے والد کے تعلق کے حوالے سے غلط باتیں بیان کرتے ہیں۔ وہ میرے والد کو عام انسانوں کی سطح پر لانے کے لیے داستان طرازیوں سے بھی گریز نہیں کرتے۔

برصغیر نے مسلمانوں کے بہت سے رہنما پیدا کیے مگر میرے والد کے علاوہ کسی نے انہیں ایک آزاد ملک نہیں دلوایا۔ اہل پاکستان کو اگر میرے والد پر فخر ہے تو بالکل ٹھیک فخر ہے…. جناح نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا“۔

قائداعظم اور دینا میں قیام پاکستان سے کچھ پہلے تک باقاعدہ خط کتابت بھی رہی۔ اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے ڈپارٹمنٹ آف آرکائیوز میں دینا کے ایسے کئی خطوط موجود ہیں جو انہوں نے اپنے عظیم باپ کو وقتاً فوقتاً تحریر کیے تھے۔ ان خطوط کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دینا اپنے باپ کی سیاسی سرگرمیوں سے نہ صرف لمحہ بہ لمحہ باخبر رہتی تھیں بلکہ ان پر اظہار رائے بھی کرتی رہتی تھیں۔ انہوں نے اپنے ایک خط میں جو 28 اپریل1947ءکو لکھا گیا تھا قائداعظم کو مبارک باد پیش کی ہے کہ پاکستان کا مطالبہ اصولی طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک خط میں جو 2 جون1947ءکو شروع ہوا اور 5 جون تک لکھا جاتا رہا، قائداعظم کی اس تاریخی تقریر پر اظہار رائے کیا گیا جو انہوں نے3 جون 1947ءکو آل انڈیا ریڈیو سے کی تھی۔ اس خط میں دینا نے لکھا:

”میں نے 3 جون کو آپ کی تقریر سنی…. میرا خیال ہے آپ کی تقریر بہترین اور برمحل تھی۔ اگرچہ آپ وہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکے جو آپ چاہتے تھے مگر جو کچھ آپ کو مل گیا ہے کانگریس سے وہ بھی ہضم نہیں ہوگا۔ ہند و پاکستان کے مطالبے کے مانے جانے اور دو آزاد ریاستوں کے قیام سے بہت ناخوش ہیں۔ تاہم آپ کا اصل کام تو پاکستان بننے کے بعد شروع ہوگا…. میں جانتی ہوں آپ اس میں بھی کامیاب رہیں گے“۔

28 اپریل1947ءکے خط میں دینا نے قائداعظم کو یہ بھی لکھا تھا:

”میں نے سنا ہے کہ آپ نے ”ساﺅتھ کورٹ“ بیس لاکھ روپے میں ڈالمیا کو بیچ دیا ہے۔ یہ بہت اچھی قیمت ہے اور یقینا آپ بھی خوش ہوں گے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ مکان کی قیمت میں فرنیچر اور رتی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ رتی کی کتابوں میں سے کچھ کتابیں بالخصوص بائرن، شیلے اور آسکر وائلڈ کے شعری مجموعے مجھے دلوا دیجیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں مطالعہ کی کتنی شوقین ہوں اور یہاں بمبئی میں اچھی کتابوں کا حصول کتنا مشکل ہے“۔

3 اور 5 جون والے خط میں دینا نے ایک مرتبہ پھر ساﺅتھ کورٹ کا ذکر کیا اور لکھا:

”مجھے افسوس ہے کہ ساﺅتھ کورٹ کو فروخت کرنے والی اطلاع غلط ثابت ہوئی۔ میں نے اس بارے میں ”فورم میگزین“ میں پڑھا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کا رسالہ اس قدر جھوٹی خبریں شائع کرتا ہے“۔

ساﺅتھ کورٹ میں قائداعظم کا جو فرنیچر اور ذاتی اشیا تھیں، انہیں قائداعظم کے دوست رجب علی بھائی ابراہیم باٹلی والا نے اپنی نگرانی میں ”پیک“ کروایا اور برٹش انڈیا کے بحری جہازوں دوارکا اور دمرا کے ذریعہ کراچی بھجوا دیا۔ کراچی میں لکڑی کے ان بڑے بڑے صندوقوں کے میکننز کے منیجر اقبال شفیع نے وصول کیا۔ لگتا ہے کہ ان صندوقوں میں رتی کی کتابیں بھی تھیں…. قائداعظم کا یہ فرنیچر اس وقت فلیگ اسٹاف ہاﺅس (قائداعظم ہاﺅس) کراچی میں موجود ہے۔ جبکہ رتی کی کتابیں جامعہ کراچی کی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے قائداعظم سیکشن کی زینت ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد دینا اپنے بچوں کے ہمراہ بمبئی میں مقیم رہیں۔ ایک روایت کے مطابق قائداعظم کی علالت کی خبریں سن کر دینا نے ان کی عیادت کے لیے پاکستان آنا چاہا مگر قائداعظم کی ذاتی ہدایات کے باعث انہیں ویزا جاری نہیں کیا گیا۔

11 ستمبر1947 ءکو قائداعظم وفات پاگئے۔ 12 ستمب1948ءکو صبح سوا آٹھ بجے گورنر جنرل کا ایک طیارہ خصوصی طور پر بھارت گیا جہاں سے وہ دینا کو لے کرشام سوا پانچ بجے واپس کراچی آگیا…. اس وقت تک قائداعظم کی تدفین نہیں ہوئی تھی۔

روزنامہ جنگ کراچی نے تدفین کی خبر رقم کرتے ہوئے تحریر کیا:

”قائداعظم کی اکلوتی صاحبزادی مسز نیوائل واڈیا ایک خاص طیارہ میں بمبئی سے کراچی پہنچیں تاکہ اپنے مرحوم باپ کا آخری دیدار کرلیں“۔

اسی خبر میں آگے چل کر مزید کہا گیا تھا:

”مس فاطمہ جناح علی الصبح سے برابر رو رہی تھیں۔ وہ سفید لباس میں ملبوس تھیں اور ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ قائداعظم کی صاحبزادی کے آجانے سے ذرا آپ کو تسلی ہوئی“۔

دینا کے بیان کے علاوہ قائداعظم کی تدفین کے موقع پر دینا جناح کو ایک چارٹرڈ پرواز کے ذریعہ بھارت سے بلوایا جانا بھی اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ قائداعظم اپنی بیٹی کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے، والا افسانہ محض افسانہ ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

قائداعظم کی تدفین کے اگلے روز 13 ستمبر1948ءکو محترمہ فاطمہ جناح اور دینا واڈیا فلیگ اسٹاف ہاﺅس تشریف لے گئیں جسے نہ تو قائداعظم نے خود تعمیر کرایا تھا اور نہ ہی اس میں کبھی رہے تھے۔ ان کی وہ ذاتی اشیا جو گورنر جنرل ہاﺅس میں استعمال نہیں کی جاسکتی تھیں، اس بلڈنگ میں اسٹور کردی گئی تھیں۔ ان میں عمدہ قسم کے قالین اور فرنیچر بھی شامل تھا۔ مسزا واڈیا فلیگ اسٹاف ہاﺅس کے کمروں میں گئیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس موقع پر انہوں نے بہت ساری اشیا شناخت کرلیں۔ انہیں ان کی خریداری کا سال اور جگہ بھی یاد تھی۔ انہیں ہر شے کے متعلق ہر وہ تعریفی جملہ بھی یاد آرہا تھا جو قائداعظم نے اس چیز کے متعلق فرمایا تھا۔ یہ بات اور بھی تکلیف دہ تھی کیونکہ ان اشیا کو تقریباً 10 سال سے وہ نہیں دیکھ سکی تھیں۔

قائداعظم کی وفات کے 55 برس کے بعد23 مارچ2004ءکو دینا جناح ایک مرتبہ پھر پاکستان تشریف لائیں اس مرتبہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلی جانے والی ایک روزہ کرکٹ سیریز کے آخری میچ کو دیکھنے کے لئے پاکستان آئی تھیں اور انہیں اس دورے کی دعوت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے دی تھی ان کے ہمراہ ان کے بیٹے نصلی واڈیا،بہو اور پوتے نیس واڈیا اور جہانگیر واڈیا بھی تھے ۔ پاکستان میں انہیں اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا گیااور یہاں ان کے اعزازمیں کئی تقریبات منعقد ہوئیں۔

26مارچ 2004ءکو محترمہ دینا واڈیا اپنے والد قائداعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دینے کے لیے کراچی تشریف لائیں جہاں انہوں نے 56 برس بعد اپنے والد کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور کچھ دیر احتراماً خاموش کھڑی رہیں۔ انہوں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات درج کئے :

“This has been a very sad and wonderful (day) for me, make his dream for Pakistan come true”

(ترجمہ:”آج کا دن میرے لئے انتہائی دکھ کا اور حیرت انگیز دن ہے خدا کرے کہ قائداعظم نے پاکستان کے لئے جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہو“)۔

اس موقع پر انہوں نے اپنی پھوپھی محترمہ فاطمہ جناح کے مزار پر بھی حاضری دی اور مزار قائد کے کمرہ نوادرات کو بھی دل چسپی سے دیکھا، انہوں نے وہاں نمائش پزیر تصویروں میں سے تین تصاویر کی نقول بھی مانگیں، بعدازاں انہوں نے اپنے بیٹے اور پوتوں کے ہمراہ فلیگ اسٹاف ہاﺅس اور وزیر مینشن کا دورہ بھی کیا۔

انہوں نے اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس میں مختلف شخصیات سے ملاقات بھی کی اور7 گھنٹے کے قیام کے بعد ممبئی واپس روانہ ہوگئیں۔

دینا جناح کے دو بچے ہوئے۔ ایک بیٹی(ڈائنا) اور ایک بیٹا (نصلی واڈیا)۔

2نومبر2017ءکو دینا جناح98سال کی عمر میں نیویارک میں وفات پاگئیں۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں