231

خواب ، رُوح اور تقدیر کا تعلُق۔

اللہ کی طرف سے کسی بندے کے لیے بچھائی گئی تقدیرکی مُمکنہ شاخوں میں سے کسی ایک شاخ کا رُوحانی جائزہ ہی درحقیقت خواب ہے۔

نیند کے دوران جب اللہ نفس کو قبض کر لیتا ہے تو رُوح نفس کے سب سے گہرے حصّے یعنی تحتُ الشعُور کے مسائل، خوف، غم اور خواہشات کا جائزہ لے کر ان سب کے تناظُر میں نفس کی مدد کے لیے تقدیر کی مُمکنہ دُرزوں میں جھانکتی ہے۔

یعنی خواب رُوح کا سفر ہے جو وہ زماں و مکاں کے اثر سے باہر کرتی ہے۔

رُوح کا یہ سفرہربار تقدیر کی مُتبادل شاہراہوں پر ہوگا۔

تقدیرکی کسی شاہراہ کی موجُودگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ انسان جس کے لیے یہ شاہراہ تیار کی گئی یہاں سے لازماََ گُزرے گا

لیکن رُوح کے لیے یہ مُمکن ہے کہ وہ اُس انسان کے لیے مخصُوص ہو جانے والی حال یا مُستقل کے کسی بھی جنکشن سے نکلنے والی تمام مُتبادل شاہراہوں پر سفر کر کے دیکھ سکے جو انسان کے لیے بچھائی تو گئی ہوں لیکن اُسے اُنمیں سے اپنے اختیار سے ایک ہی چُننی ہو۔

یعنی رُوح کا کام ہرموقع پر مُتعدّد راستوں میں سے کوئی ایک راستہ چُننے میں انسان کی الہامی رہنُمائی کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔

یہ بھی مُمکن ہے کہ رُوح انسان کے ماضی کی تقدیر کی اُن شاہراہوں میں جھانکے جن کا راستہ نہ چُن کر انسان حال میں مُشکلات کا شکار ہو۔

رُوح کا انسان کے ماضی میں دیکھنا اور خواب کی شکل میں دکھانا بھی اُسے یہ سبق دینے کے لیے ہے کہ پہلے کے غلط چُناؤ نے مصائب کا شکار کیا ورنہ اللہ نے تو پہلے بھی بہتر نتائج والہ شاہراہیں تقدیر میں رکھ چھوڑی تھیں

رُوح کا انسان کو خوابوں کے ذریعے ماضی کا غلط چُناؤ یاد کروانا اس لیے اہم ہے تاکہ انسان پچھلی غلطی نہ دُہرائے اوراب بھی مُستقبل کے لیے آج موجُود شاخوں میں سے کوئی بہتر اور مضبُوط شاخ چھانٹ کر اُسی پر چڑھ جائے۔

رُوح نہ زمانے کی قیدی ہے نہ جگہ کی

یہ تو انسان کی دُنیاوی پیدائش سے پہلے کی باتیں بشمُول اللہ سے کیا گیا عہد اور اُس وقت میری جانب سے دیکھا گیا مُستقبل بھی یاد کروائے گی جو اب سے ٹھیک چند لمہوں بعد میرا حال ہوگا

تبھی تو بعض لوگوں کو لگے گا کہ وہ یہاں سے پہلے بھی گُزرے تھے یا یہ سیچُوایشن پہلے بھی دیکھی تھی

یعنی رُوح صرف سوتے میں نہیں جاگتے میں ماضی اور مُستقبل سمیت حال اور مُستقبل کا جنکشن بھی یاد کروا سکتی ہے۔

لیکن ہر کسی کے نفس اور رُوح میں وہ توازُن نہیں ہوتا کہ وہ رُوح کا دکھایا دیکھ سکے اُسکا سُنایا سُن سکے اور اُسکا پڑھایا پڑھ سکے۔

رُوح تو ہر دوراہے پرمُستقبل حال اور ماضی کی مُتبادل شاہراہیں دکھاتی ہے لیکن کثیف نفُوس کی چھلنی رُوح کے دکھائے کا عکس شعُور تک پہنچنے نہیں دیتی. جبکہ لطیف نفُوس کی چھلنی رُوح کے دکھائے استعاروں اور علامات کی تشریح کر کے اُنکے قلُوب کو بصیرت سے بھر دیتی ہے.

پھر وہ بھی دیکھنے کے دوران خُود کو زماں و مکاں کی قید سے آزاد پاتے ہیں لیکن یاد رہے

ہر ایک اپنی تقدیر ہی دیکھے گا

کیونکہ اللہ ہر ایک کی تقدیر کا امین ہے وہ خیانت نہیں کرتا اور رُوح اللہ ہی کا امر ہے تبھی میرا رُوح کے ذریعے دیکھا سُنا اور پڑھا بس میرے لیے ہی حُجّت ہوگا۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں