231

کیڑا۔

کیڑا لفظ سنتے ہی دماغ میں حشرات ال ارض کی کوئی قسم ذہن میں آجاتی ہے …لیکن چونکہ جیسی روح ویسے فرشتے ، جسی قوم ویسے حکمران یا پنجابی میں جیسا منہ ویسی چپیٹ کے مصداق فی زمانہ جیسے بزم خود لیڈر ہمیں میسر ہیں بحیثیت ویسی ہی قوم ہما رے پاس بھی ہر بیانئے کا دوسرا یا متبادل بیانیہ پیش کرنے کا حق محفوظ ہے…

اب کیڑا جو کہ کسی بھی قسم کی حشرات ال ارض یا زمین پر رینگنے والی مخلوق کے لئے استمال ہوتا ہے اس انمول قوم کی نظر میں اسکا دوسرا بیانیہ کسی بھی زی روح ااشرفل مخلوقات کی موجودہ “تینوں اجناس” کی ایک مخصوص پوشیدہ جگہ جو کے عموما شرم گاہ کی “معلوم اقسام” میں سے “ایک قسم” جسے شرم گاہ کی اک قسم کے بے شرم لقب سے عوام الناس میں عموما سرگوشی کی شکل میں بیان کی جاتی ہے اسمیں میں سکونت پذیر اک غیر مرئی لیکن لافانی قسم کے کردار کے بارے میں ہے .

اسے ذرا مہذب الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کی روح اسکا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے کیونکہ جتنی وسعت جتنی ذومعنی مٹھاس اس ایک لفظ میں ہے وہ کسی مہذب لفظ کے بس کا روگ ہی نہیں . مجھے کہنے دیجئے ک خواہ ہی یہ لفظ مہذب اخلاق معنی کے ساتھ رائج العمل ہے پھر بھی اس میں چھپے جذبے اور ٹیلنٹ کی قدر و منزلت سے بھی وہی شخص روشناس ہے جو بذات خود اس غیر مرئی لیکن لافانی جاندار کا مالک ہے اور اگر جن کی امان پاؤں تو عرض ہے کے ہم میں سے ہر کوئی جو کے خود کو اشرف ال مخلوق کے درجے پی فائز مانتا ہے وہ اس جاندار کا اکیلا سالم مالک بھی ہوتا ہے یہ ایک عالمگیر سچائی ہے کوئی مانے نہ مانے…

اچھا یارو تھوڑا موقع تو دو ثابت کرنے کا پھر یہ فیصلہ کرنا کے کیا واقعی آپ بھی خود کے ذاتی کیڑ ے کے مالک ہیں یا نہیں ؟ میں یہ نیک کام خود سے شروع کرتا ہوں … مثلاً مجھے لکھنے کا کیڑا ہے …مہذب بیانیہ میں کہتا ہوں کے مجھے لکھنے کا شوق ہے … اعتراف کرنے میں بہادری ہے پھر بھی اعتراف نہ کرو تو مرضی تمہاری …ماننے نہ ماننے سے سچائی تو نہیں بدلتی ہے نا ؟

جیسے کہتے ہیں نا  کہ گالی دینے کا جو مزہ پنجابی میں ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں پنجابی گالی کا معاملہ تو ایسا ہے کے “روح تک بات اتر جاتی ہہے مسیحائی کی” اسی طرح آپکا hidden talent آپکی کسی کام کو کرنے کی لگن آپکا کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہر، آپ کا ڈھیٹ پن جسے انگریزی میں چلو آپ dedication بول لو کسی بھی طرح کے نا موافق حالات کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کا جنون …یہ ہے کیڑا …ایویں بلاوجہ کو شرمندہ ہونے کی کیا ضرورت ہے بھلا …بیانیہ دینے میں خود کفیل قوم کے فرد ہیں ہم اس کیڑ ے کا بیانیہ اپنی مرضی کا سوچ لیتے ہیں لیکن یارو یاد رکھو اگر یہ کیڑا ختم تو سمجھو زندگی میں سے innovation ختم ….

نظر دوڑا یں اپنے آ س پاس …ہر طرف اس غیر مرئی لیکن لافانی جاندار کی وجہ سے رونما ھویے کارنامے بکھرے پرے نظر آتے ہیں … کسی کو سیاست کا کیڑا ، کسی کو سیانا بننے کا کیڑا ، کسی کو شاپر ڈبل کروانے کا کیڑا، کسی کو ہر جگہ اپنا لچ تلنے کا کیڑا ، کسی کو لکھنے کا کیڑا ، کسی کو پڑھنے کا کیڑا … ہر کوئی اپنے ذاتی خود کے کیڑے کا مالک ہوتا ہے…

اور آخر میں ایک راز کی بات بولوں … یہ غیر مرئی لیکن لافانی جاندار کبھی بھی مرتا نہیں …لاکھ زمانہ برا چاہے یہ ہر ضروری موقع پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ضرور ہے خواہ اسمیں اسکے مالک مکان کی مرضی شامل ہو نہ ہو … ہوتا جو پوشیدہ جگہ میں چھپا ہوا اور اوپر سے اپنی مرضی کا ملک ایک خود مختار غیر مرئی لیکن لافانی جاندار …

ایک اور راز کی بات۔۔۔جیسے انگریزی میں ایک ٹرم ہے Multi talented ایسے ہی اک انسان ایک سے زائد کیڑوں کا مالک بھی ھوسکتا ھے۔۔۔جملہ احباب نوٹ فرما لیں۔ اس کیڑے کی قدر کرنا سیکھئے کیونکہ یہ آپکی ذات میں موجود ایک واحد غیر مرئی لیکن لافانی جاندار جو خواہ آپکی جتنی بھی عمر و تجربہ ہوجائے اپنا موقف نہیں بدلتا تو اسکی مستقل مزاجی اتنی قدر کی تو مستحق ہے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں