Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
215

ہم سب بطور قوم مجموعی لعنت کے حقدار ہیں.

ضلع سرگودھا کی ایک تحصیل کوٹ مومن ہے ، اس کے ایک گاوں کا نام بچہ کلاں ہے ، ایک غریب مسکین اور بدقسمت محنت کش احمد خان جس کی قوم مسلم شیخ ہے اس بدنصیب کا تعلق بھی اسی گاوں سے ہے
احمد خان کی 11 سالہ بیٹی سونیا 26 جنوری 2018 یعنی پرسوں بروز جمعہ شام کے وقت کے قریب گھر دے تھوڑا دوری پر کھیتوں میں رفع حاجت کیلئے جاتی ہے ، کہ اسی دوران وہاں پر اوباش اسے زیادتی کا نشانہ بنا دیتے ہیں
والدین گھر میں پریشان ہوتے ہیں ، بیٹی ابھی تک واپس نہیں آئی ، ماں کا صبر جواب دیتا ہے وہ دوڑتی ہوئی گھر سے نکلتی ہے اور اس کا خاوند بھی بیوی کے ہمراہ چل پڑتا ہے۔
اہل علاقہ سے پوچھتے پوچھاتے کھیتوں کے پاس پہنچتے ہیں تو انہیں اپنا چاند نظر آتا ہے کہ جس کی زندگی اور کردار پر بدبخت ہمیشہ کیلئے داغ لگا چکے ہوتے ہیں ، بیٹی کو نیم مردہ حالت میں دیکھ کر ماں کی چیخ نکلتی ہے ، برہنہ جسم پر چادر ڈالتی ہے تو غریب باپ کے سر پر میلی سی پگ کھل کر گلے میں آ جاتی ہے ، میرا وجدان کہتا ہے کہ اس باپ نے ایک بار ضرور سوچا ہوگا کہ اسی سے پھندا لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے ، لیکن شاید غریب کو اب موت بھی نہیں آتی ہے۔
بیوی کی طرف دیکھتا ہے تو وہ پانی سے نکالی مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہوتی ہے ، بیٹی کو چوم چوم کر اس کا درد بانٹنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے ، اپنے آنسو گلے میں پھندے کی طرح لٹکے کپڑے سے پوچھتا ہے اور پھر بیوی کو ڈھارس بندھاتے کہتا ہے ہم ظالموں سے سونیا کا بدلہ ضرور لیں گے ، اور بیوی خالی نظروں سے کبھی احمد خان کو دیکھتی ہے اور کبھی سونیا کے جسم کو ٹٹولتی ہے کہ جس معصوم کو اس طرح مسلا گیا جیسے کلیوں کو مسلا جاتا ہے۔۔
11 سالہ چھوٹی سی بیٹی کو احمد خان اٹھاتا ہے جائے وقوعہ سے گھر کی طرف لاتا ہے اور پھر ہمراہ کچھ مقامی افراد کے قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کیلئے تھانہ میلہ پہنچتا ہے ،لیکن شاید وہ بھول جاتا ہے کہ ہمارے قانون اور انصاف کے درودیوار غریب کی سوچ سے بھی اونچے ہوتے ہیں ، اس لیے قانون کے بیٹے اسے ہسپتال جانے کا کہتے ہیں کہ مقدمہ تب ررج کیا جائے گا اگر میڈیکل ایگزیمینیشن کروا کر لاو گے ، غریب باپ اپنی 11 سالہ لٹی ہوئی بیٹی کو لے کر تحصیل ہسپتال کوٹمومن پہنچتا ہے ، جہاں ایک بار پھر اس کی غربت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

تحصیل ہسپتال کوٹ مومن میں ان دکھوں کے مارے والدین کو کہا جاتا ہے کہ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نہیں ہیں اس لیے ابھی میڈیکل نہیں ہو سکتا ، دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور چہروں پر اپنا جرم ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ، جہاں غربت ، غربت اور غربت جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے۔
باپ کبھی اپنی بیٹی کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی ہسپتال میں لگی وزیراعلیٰ پبجاب شہباز شریف اور وزیر مملکت محسن شاہ نواز کی تصویروں پر نظر دوڑاتا ہے ، اگر ان میں سے ایک شخص بھی اس وقت اسے مل جاتا تو احمد خان اس وقت غریب مسلم شیخ نہیں بلکہ ایک باپ کے روپ میں تھا ان سے اپنی بیٹی کی بے حرمتی کا بدلہ لینے میں نہ ہچکچاتا ، باپ اپنی ادھ موئی بیٹی کو اٹھاتا ہے ، لیکن اصل میں وہ اس تباہ شدہ نظام کو اٹھائے ہوئے ہوتا ہے ، آنکھوں میں آنسو لیے وہ گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے۔
گھر پہنچتا ہے تو میاں بیوی دھاڑیں مار کر روتے ہیں ، ابھی یہ دکھ ختم نہیں ہوتا تو معلوم پڑھتا ہے کہ علاقے کی ایک طاقتور شخصیت آئی ہے باہر نکلتے ہیں تو پتا چلتا ہے ، یہ لوگ صلح کرنے کا کہہ رہے ہیں کیونکہ ابتدائی طور پر معلوم پڑ جاتا ہے کہ کون شخص تھےصلح کو دباو شروع ہوتا ہے جو آخری اطلاعات تک جاری تھا۔
کوٹ مومن میں اے سی عفت النساء ہیں ، جب میرے تک یہ خبر پہنچی تو مجھے یقین تھا کہ وہ تمام دباو کا بالائے طاق رکھتے ہوئے اس غریب بچی کے سر پر ہاتھ رکھیں گی اور اسے انصاف دلائیں گی ، میں نے محترمہ کو اس حوالے سے وٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا کہ کیا سونیا کا مقدمہ درج ہو گیا لیکن کالج سے لے کر ریسٹورنٹس اور بیکریوں پر چھاپے مارنے والی اس خاتون افسر نے میسج پڑھنے کے باوجود مجھے جواب دینا گوارہ نہ کہا شاید ان کے خیال میں 11 سالہ بچی سے اجتماعی زیادتی اتنا سنگین جرم نہیں کہ وہ ایک سر پھرے صحافی کو جواب دیتی پھریں۔
پھر میں نے ڈی ایس پی کوٹ مومن شاہد نذہر کا نمبر ملایا لیکن انہوں نے کال اٹینڈ کرنے کی زحمت نہ کی ، ان کے وٹس ایپ پر پیغام بھیجا لیکن ابھی تک انہوں نے سونیا کیس کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی شاید وہ بھی اے سی کوٹ مومن کی طرح اسے کوئی بڑا واقعہ نہ سمجھتے ہوں ۔
پھر میں نے تھانہ میلہ پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں کا جو نمبر مجھے دیا گیا وہ شخص انکاری ہے کہ وہ میلہ پولیس کا نمبر ہے۔
ناجانے کیوں ہم دوسروں کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں نہیں سمجھتے ، ناجانے کیوں ہم غریب کو انسان نہیں سمجھتے، ناجانے کیوں 11 سالہ بچی سے زیادتی ہمارے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
شاید اسی وجہ سے ہم سب بطور قوم مجموعی لعنت کے حقدار ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں