203

حقیقی اسلام اور فِرقوں کی بھُول بھُلَیّاں۔

نوٹ: مُجھے علم ہے کہ میری یہ تحریر میرے والدین سمیت بیشتر قارئین کی دل آزاری کا باعث بنے گی کیونکہ میرے والدین سمیت میرے بیشتر قارئین انہیں فرقوں سے ہیں جنکی تفصیل میں بیان کرنے والا ہُوں۔کل میری والدہ نے فُون پر بتایا کہ وہ میری تحریریں پڑھتی ہیں۔ کسی کی بھی مُمکنہ دل آزاری کے لیے پہلے سے معذرت خواہ ہُوں۔ اس تحریر کا مقصد فقط تحقیق ہے۔

اللہ قُرآن میں کہتے ہیں اللہ نے اس دین کے ذریعے تُمہیں بھائی بھائی بنادیا پھر کہیں ان مُشرکوں میں سے نہ ہو جانا جنھوں نے اپنے دین کو ٹُکرے ٹُکرے کر دیا اور گروہ در گروہ ہوگئے۔

دُکھ کی بات ہے کہ اللہ نے تو ہمیں قُرآن و سُنّت دے کر قُرآن میں ہمارے لیے مُسلمان کا لقب پسند کیا تھا لیکن آج بغیر فرقوں کے سابقے یا لاحقے والا مُسلمان مُشکل سے ہی نظر آتا ہے۔

کیوں نہ آپکو کُچھ قسطوں میں ایک ایک کر کے فرقوں کے بننے اور اسلام سے اُنکے بُنیادی فرق سے آگاہ کرُوں۔

ویسے تو مُسلمانوں میں اس وقت ایک سو آٹھ فرقے ہیں اور انمیں سے ہر ایک کے دُوسروں سے سینکڑوں اختلافات انہیں اب اسلام سے ملتے جُلتے الگ الگ مذاہب بنا چُکے ہیں البتّہ محمدﷺ کی زندگی، وفات اور سُنّت سے مُتعلق تصوُرات کی بُنیاد پر مُسلمانوں کے پندرہ بڑے فرقوں کو پانچ بڑی کیٹیگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس پہلی قسط میں ہم پہلی دو کیٹیگریز کا جائزہ لیں گے۔

پہلی کیٹیگری میں بہت سے مذہبی فرقے ہیں جن میں سر فہرست دیوبندی اور بریلوی ہیں۔

گو کہ بریلویوں کے مزید کئی فرقے ہیں اور اُن کے بعض فرقوں کا محمدﷺ کے تصوّر کے حوالے سے جھکاؤ شیئہ اور بعض کا صوفی کیٹیگری کی طرف ہے اور دیوبندیوں کے بھی مزید کئی گروہ ہیں اور بعض گروپس کا جھُکاؤ اہل حدیث نظریات کی طرف ہے لیکن دیو بندیوں اور بریلویوں کو بہرحال ایک کیٹیگری میں رکھا جا سکتا ہے کیونکہ ان کا ماخذ امام ابو حنیفہ کا مذہبی فلسفہ ہے۔

یہ ایک الگ بات ہے کہ انہوں نے ابو حنیفہ کی تحقیق کے بھی ایک چھوٹے سے حصے کو ہی اپنایا تھا اور اُس میں بھی ان فرقوں کے بعد کے اکابرین نے اتنے اختلافی نوٹ شامل کر دیے کہ ان فرقوں کو ابو حنیفہ کے راستے پر کہنا ابو حنیفہ جیسے مُحقق کے ساتھ ناانصافی ہے لیکن ہم انھیں ان کے دعوے کے مُطابق ابو حنیفہ سے ہی منسوب کریں گے۔

اس گروہ کے نزدیک محمدﷺ کی وفات ظاہری اور جسمانی موت تھی اور وہ آج بھی اپنی قبر اطہر میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ خواب کے ذریعے ان کے مذہبی اکابرین کی رہنمائی فرماتے ہیں۔

مُحمدﷺ کی صرف جسمانی وفات لیکن اُنکا ہدایت دینا جاری رکھنے سے مُتعلق ان کا یہ عقیدہ اس گروہ کوھدایت کے لیے قُرآن و سُنّت سے مزید آگے اُن شخصیات کی طرف دیکھنے پرمجبور کرتا ہےجو مُحمدﷺ سے اُنکے جانے کے بعد بھی انکے بقول روحانی فیض پاتے رہے یا اُنکی طرف جو ابھی بھی یہ مُبیّنہ فیض حاصل کرتے ہیں۔

ان کے نزدیک محمدﷺ کی وفات کے بعد حدیث اور تین خُلفاء کے تمام فیصلے اسلام کا ویسا ہی ماخذ ہیں جیسے قُرآن۔

اس گروپ کے ہاں اجتہاد کے دروازے جُزوی طور پر بند ہیں کہ نبیﷺ اکثر مُعاملات کا فیصلہ فرما گئے ہیں اور باقی کا فیصلہ پہلے تین خُلفاء نے کر دیا۔

ویسے تو یہ چوتھے خلیفہ کو بھی خلیفۂ راشد کہتے ہیں لیکن بالخصوص دیو بندی پہلے تین خُلفاء کے فیصلوں کو ہی ماخذ اسلام میں شامل کرتے ہیں۔ میں اس مُعاملے کی تفصیل میں ابھی نہیں جاؤں گا۔

اس کیٹیگری کے نزدیک اگر کُچھ مُعاملات خُلفاء سے بھی اس لیے رہ گئے کہ اُس دور میں اُن مُعاملات کا وجود نہیں تھا تو رہتی دُنیا کے ایسے مسائل بھی امام ابو حنیفہ حل کر گئے۔

مزید کسی وضاحت کی ضرورت ہو تو نبیﷺ انکے امیر کو خواب کے ذریعے رہنُمائی فراہم کر دیتے ہیں۔

لہٰذا یہ اپنے مذہبی اکابرین کا ویسے ہی دم بھرتے ہیں جیسے صحابہؓ نبیﷺ کی پیروی کرتے تھے۔

یہ گروہ نبیﷺ سے مُحبت کا دم بھرتے ہوئے احادیث کو قرآن سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اگر حدیث کہیں قُرآن سے ٹکراتی ہو تو قُرآن کی ایسی آیت کا حُکم منسوخ سمجھا جاتا ہے

اور اس کی تاویل اس گروپ کے اکابرین یہ دیتے ہیں کہ قُرآن بھی نبیﷺ کی زُبان سے ہی ہم تک پُہنچا ہے اور حدیث تو ہے ہی اُنکے اپنے الفاظ لہٰذا حدیث سے مُعتبر کُچھ نہیں۔

بُخاری کی احادیث کو بھی صحیح احادیث اس لیے مانا جاتا ہے کہ اس گروہ کے نزدیک بُخاری نے تحقیق تو کی ہی تھی لیکن مُحمدﷺ نے اُنکی خوابوں کے ذریعے بھی لاکھوں احادیث میں سے سچی احادیث چھانٹنے میں رہنُمائی فرمائی تھی۔

سُنّت کی ظاہری شکل اپنا کر اس کیٹیگری کے تمام فرقے سُنّت کی روح ترک کر چُکے ہیں لہٰذا اسلام کی روح انسے نکل گئی۔

یہ گروہ نبیﷺ کی ہر ظاہری سُنّت کی سختی سے نقل کرتا ہے اور اسی کو نبیﷺ سے مُحبت سمجھ کر اپنے تئین نبیﷺ کا سچا پیروکار ہے۔

یہ ہمیشہ سخت گیر ہونگے۔ دوسرے مُسلمانوں کی تکفیر کریں گے۔ مُعاشرتی ناہمواری دور کرنے ، انصاف اور اچھی حُکمرانی کے لیے یہ کبھی کوئی عملی جدوجُہد نہیں کریں گے البتہ اپنے تنگ نظر گروہی نظریے کے لیے ہتھیار اُٹھائیں گے انکے اکابرین اپنے حکمرانوں کے ہمیشہ قریب ہونگے۔

حُکمران بھی ہمیشہ انھیں پسند کریں گے کہ نماز، روزے اور ظاہری سُنتوں اور اکابرین کی عظمت کے قصے کہانیوں کی تبلیغ و ترویج سےکسی بھی بُری سے بُری حُکمرانی یا نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

بُرے نظام کوخطرہ تو سُنت کی روح پر عمل کرنے والوں سے ہوتا ہے۔

پچھلی کُچھ دہائیوں میں اس کیٹیگری کی نئی نسل میں اپنے ماحول کی گھُٹن کے باعث بغاوت اورمذہب سے دوری بڑھی ہےاور انھی میں سے ایک مُعتدل طبقہ بھی نکلا جو بُنیادی نوعییت کے مذہبی مُاملات کی تبلیغ پر پر توجہ دیتا ہے

لیکن وہ بھی سُننت کی روح کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے کوئی بڑی سیاسی سماجی یا مُعاشی ترقّی لانےمیں کوئی کردار ادا نہیں کر پایا۔

کیونکہ اس گروہ کے نزدیک سیاسیات، معیشیت اور سماجی علوم دُنیاوی مُعاملات ہیں جنہیں حُکمرانوں کے ذمّے رہنا چاہیے جو کہ سُنّت کی روح کے برعکس ہے کہ نبیﷺ نے اسلام کو قائم کرنے کے لیے اُس وقت کے حالات کے مُطابق مُعاشی، مُعاشرتی اور انتظامی نظام تشکیل دینے کے لیے ہر لمحہ جدوجہد کی ورنہ مکّہ سے ہجرت کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

اُس وقت کے سب کُفّار کی بھی داڑھیاں تھیں امامہ یا پگڑی اُن کی بھی شان تھی اور سب قبیلوں کو تین سو ساٹھ بتوں میں سے کسی کی بھی اپنی مرضی اور اپنے طریقے سے عبادت کی آزادی تھی۔

اگر بات خطۂ عرب میں صرف ایک اور خدا اور چند عبادات کے اضافے کی ہوتی تو وہ یہودی قبائل کو بھی خطۂ عرب میں صدیوں سے بڑی خوشدلی سے برداشت کر رہے تھے جو اُسی خدا کی عبادت کرتے تھے جس کے راستے پر مُحمدﷺ بُلاتے تھے اور یہودیوں کی عبادت کا طریقہ بھی کم و بیش مُسلمانوں جیسا تھا۔ مُسلمانوں کے نماز روزےسے مُشرکین کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا اُنہیں تو اسلامی مُعاشرتی نظام سے خطرہ تھا جو اُن کے صدیوں پُرانے سیاسی ، مُعاشی اور دفاعی نظام کی جڑیں ہلا رہا تھا۔

اُس وقت کے کُفّار کو نماز روزے اور مسلمانوں کی نبیﷺ سے والہانہ مُحبت میں انکا نظم و ضبط ، اتحاد ، سیاسی و سماجی تربییت اور ابھرتی ہوئی لیڈرشپ نظر آتی تھی جو جلد ہی نئے نظام تشکیل دینے والی تھی۔

دوسری کیٹیگری میں اہم اہل حدیث اور غیر مُقلّد فرقے ہیں لیکن اس کیٹیگری کے گروہوں میں گزشتہ صدی میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا جب ان کے ایک گروہ کو چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں پہلی بار حرمین شریفین کا اقتدارملا اور تبھی سے دُنیا بھر میں اتنے مُسلمان قتل ہوئے جتنے شاید تیرہ سو سال میں نہ ہوئے ہوں۔

اس کیٹیگری کے نزدیک محمدﷺ ایک عام انسان تھے اور اُنکی وفات کے وقت جو اُنہوں نے چھوڑا وہ صرف قُرآن اورنبیﷺ سے مُتعلق کُچھ روایات ہیں جنکی وضاحت امام مالک اور امام شافعی نے اپنے تحقیقی کام میں کی البتہ یہ ان دونوں اماموں کے تحقیقی مجموعوں سے بھی شاذونادرہی رہنمائی لیتے ہیں۔

نبیﷺ سے مُتعلق روایات کے بھی یہ صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں سُنت کی روح تو یہ تب دیکھیں جب نبیﷺ کو قُرآن لانے والے ایک پیغمبر سے زیادہ اہمییت دیں جس نے اپنی زندگی میں مُعاشرے کو قُرآن کی جیتی جاگتی تصویر بنا دیا۔

قُرآن کی مجموئی روح کی بجائے یہ طبقہ قُرآن کے بھی چُنیدہ احکامات پر پوری توجّہ مرکوز کرتا ہے۔

اجتہاد کی یہاں بھی بندش ہے۔

ان کے نزدیک اجتہاد بدعت ہے اور بدعت حرام ہے۔

آمریت، بربریت ، تنگ نظری اور شدت پسندی اس طبقے کی گھُٹی میں ہے۔

جب حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان صلح کا موقع آیا تو ایک طبقہ یہ کہہ کر الگ ہو گیا کہ ثالث صرف قُرآن ہو سکتا ہے جبکہ نبیﷺ کی زندگی میں ثالث کی بہت مثالیں موجود تھیں۔

وہی طبقہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا اور آج اس کیٹیگری میں اُنہیں سخت گیرخوارج کی جھلک نظر آتی ہے۔

اس کیٹیگری کی پہلی کیٹیگری کے بعض گروہوں سے نظریاتی ہم آہنگی نے طالبان جنم دیے

جبکہ داعش یعنی دولت اسلامیہ اور القائدہ اورافریقہ میں لاکھوں مُسلمانوں کی قاتل بوکوحرام جیسی خونخوار تنظیموں نے اسی کیٹیگری کی کوکھ سے جنم لیا۔

اگر مُحمدﷺ اس کیٹیگری کے لاشعور سے نہ نکال دیے جاتے تو سخت گیری انکے شعورمیں جگہ نہ بنا پاتی۔

اس کیٹیگری کی گھُٹن سے بھی پچھلی دہائیوں میں کئی نئی تحرکیں اور شخصیات نکلیں جنھوں نے شدت پسندی کی بجائے قُرآن کی روح سمجھنے کی کوشش کی۔

احمد دیدات اور ڈاکٹر ذاکر نائک جیسے قُرآن کے سیکڑوں مُحقیقین اسی کیٹیگری سے نکلے۔

غامدی اور پرویزی تحریک کی کُچھ نظریاتی آبیاری بھی اسی کیٹیگری سے ہوئی لیکن یہ تمام تحریکیں اور شخصیات اپنی نیک نیّتی کے باوجود اپنے ماننے والوں کے لاشعور کا خالی پن بڑھانے کا سبب بنی

کیونکہ محمدﷺ کی ذندگی اور سُنّت کے عدسے کے بغیر قُرآن کی سمجھ ایسے ہی ہے جیسے کسی کمپیوٹر میں دُنیا جہان کی معلومات جمع کر دی جائیں لیکن ہر قسمی معلومات رکھنے کے باوجود وہ ایک انسان کی طرح نہ سوچ سکتا ہے اور نہ اپنے جیسی تمام مشینوں کو ساتھ ملا کر دُنیا مُسخر کر سکتا ہے۔

اس کیٹیگری کے جدید مُحقیقین اور تحریکیں یہ نہ سمجھ پائیں کہ جیسے قُرآن کے عجائبات ہر نئے دورمیں واضع ہوتے رہیں گے بالکل ویسے ہی نبیﷺ کی زندگی کے مُختلف پہلوبھی ہر دور میں مُختلف طبقوں کے لیے مشعل راہ ہونگے۔ مُحمدﷺ کی زندگی اور سُنّت قُرآن کی تشریح کے علاوہ کُچھ نہیں۔

حدیث اور سُنّت میں فرق کر کے سُنّت میں تحقیق در تحقیق کی ضرورت بالکل اتنی ہی ضروری ہے جتنی قُرآن میں تحقیق ضروری ہے۔

پرویزی اور غامدی تحریک کا خیال ہے کہ سُنت اللہ کی ہوتی ہے اور تمام نبی اللہ ہی کی سُنّت لاتے ہیں۔

اُنکا یہ عقیدہ مُحمدﷺ کی انفرادیت کی نفی ہے۔

مُحمدﷺ صرف اللہ کا پیغام لانے والے ایک نبی نہیں تھے۔

ایک تو وہ آخری نبی تھے اور دوسرے اُنہوںﷺ نے آنے والے ہر دور کے لیے اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر کوئی نہ کوئی نمونہ چھوڑا ہے جس پر تحقیق کی ہر دور میں ضرورت رہے گی۔

قُرآن و سُنّت ایک مُتحرّک حکمت عملی ہے۔

آج بھی مُسلمان دنیا کے کسی خطے میں مُحمدﷺ کی مکّی زندگی جیسے حالات میں رہ رہے ہیں اور بعض جعفر طیّارؓ کے گروہ کی طرح ہجرت حبشہ کے دور میں ہیں۔

کسی مُسلمان گروپ کو مُحمدﷺ کے گھاٹی میں سماجی بائکاٹ جیسی صورتحال درپیش ہے۔ کسی مُسلم مُعاشرے کے لیے مُحمدﷺ کی فتح مکہ سے پہلے والی مدینے کی زندگی میں ہدایت ہے اور کوئی مُعاشرہ وہاں پہنچ چُکا ہے جہاں فتح مکہ کے بعد والے محمدﷺ کا نمونہ اپنانا اسکے لیے وقت کی ضرورت ہے۔۔(۔۔۔ جاری ہے۔۔۔ )
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں