235

اک بزم کی کہانی ، میری زبانی

اس بار عید بھی کیا خوب عید ہوئی ۔ خوشیاں اتنی زیادہ تھیں کہ انہیں بانٹنے میں وقت زیادہ درکار تھا ۔ گو کہ زیادہ وقت ہمارے پاس میسر نہ تھا کیونکہ عید کی چھٹیا ں ہی بہت مختصر ہوئیں لیکن ہم اسی مختصر وقت میں زیادہ خوشیاں بانٹ آئے یعنی ، کم وقت میں اپنا ٹاسک پورا کر لینا اور وہ بھی اچھے سے پورا کرنا کوئی معمولی بات نہیں ۔

اس بار ہم نے اپنی ترتیب دی ہوئی خوشیاں لوگوں میں بانٹنے کے علاوہ اور بھی خوشیاں لوگوں میں بانٹی ۔ان خوشیوں کو بانٹنے کا سہرا محترم بشر صاحب کے سر جاتا ہے اور میں یہ مناسب جانتا ہوں کہ اِنہیں خوشیوں بارے باقی احباب کو بھی خبر کی جائے ۔

میرے دل سے ہر بار محترم بشر صاحب کےلیے دعائیں نکلتی ہیں۔ جب بھی انہیں ملتا ہوں ، دیکھتا ہوں یا سنتا ہوں وہ لوگوں کی بھلائی کے لیے محنت کر رہے ہوتے ہیں ۔خدا انہیں بہترین اجر سے نوازے ۔ بشر صاحب نے ایک محفل ترتیب دی جسے ” مشاعرے ” کے نام سے منسوب کیا ۔ اس کا مقصد دیکھیے کس قدر بہترین اور لائقِ تحسین ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں قابلیت کی کمی نہیں پر اس قابلیت کو کسی کے سامنے ظاہر ہونے میں جو رکاوٹ یا دیوار بنی ہے اسے ڈھانے کی سعی کی جائے ۔یعنی ہم میں کئی ایسے نوجوان ہیں جنہیں خدا نے بہترین صفات سے نوازا ہے۔ اگر انہیں صفات کو ہر شخص تلاش کر گزرے اور اس پہ محنت کرے تو یقیناً وہ ایک کامیاب شخص ہو گا ۔

اس محفل کے انتظامی امور جناب نعمان ایوب کے سپرد کیے ۔جگہ کا تعین کرنے میں برادرم یاسر صاحب نے بہترین مشورہ دیا کہ ان کے گھر میں یہ محفل ہو تو بڑی سعادت کی بات ۔ پھر محفل کی جگہ وہی مقرر ہوئی کیونکہ یاسر صاحب کی یہ بات ہمارے لیے بڑی سعادت کی بات تھی ۔ سبھی احباب کو خبر دی کہ محفل مغرب کی نماز کے بعد باقاعدگی سے شروع کی جائے گی ۔ ماسوائے میرے اور جنابِ من طیب باسم کے سبھی احباب بر وقت مقررہ جگہ پر پہنچ گئے ۔

محترم تہامی بشر صاحب نے سٹیج سیکٹری کا عہدہ بھی خود سنبھالا ، صدارت کا منصب جناب نعمان ایوب کے نام کیا اور مجھے یعنی محمد فیاض حسرت کو اس محفل میں بطورِ مہمانِ خصوصی کے اعزاز سے نوازا گیا ۔ محفل کا آغاز یاسر صاحب نے خدا کی پاک کتاب کے کلام سے کیا اور پھر خدا کے محبوب کی شان میں نعت کی صورت میں نذرانہ پیش کیا ۔ جب بھی ہم کہیں مل بیٹھتے ہیں تو اُن سے سید پیر نصیر الدین شاہ صاحب کے نعتیہ اشعار اور ظفر صاحب کے نعتیہ اشعار ضرور سنتے ہیں ۔ اس کے بعد بشر صاحب نے بڑی خوبصورت بات کی ۔

 ” یہ محفل باقی محفلوں کی طرح ہر گز نہیں کہ چند اشخاص بیان کرنے والے ہوں اور باقی سننے والے ہوں بلکہ اس محفل میں موجود ہر شخص کچھ نہ کچھ ، جو بھی ہو جیسا بھی ہو سٹیج پہ آ کر پیش کرے گا ” اس بات کی وجہ سے محفل میں موجود ایسے ایسے ہیرے دریافت ہوئے جن کی کوئی خبر ہی نہ تھی اور شاید یہ محفل نہ ہوتی تو کتنی دیر اور خبر نہ ہوتی۔
جناب نعمان صاحب نے کچھ اشعار حاضرینِ محفل کی خدمت میں پیش کیے تو مجھے تعجب ہوا کہ اتنا اچھا لکھتے ہیں اور مجھے خبر ہی نہیں ۔ ارے حسرت ! یہ تو آپ کے پڑوسی ہیں پھر بھی آپ نے اتنی دیر کر دی ۔
جناب عامر صاحب نےغزل کا ایک شعر اپنی آواز میں سنایا ۔ ہائے ہائے ، کتنی پیاری آواز اور کتنا دلکش انداز ہے ۔ عامر صاحب کو بھی میری طرح کچھ احباب نے پہلی بار سنا اور ان کی اس خوبصورت آواز پہ حیرانگی ہوئی کہ یہ ہم پہلے کیوں نہ سن پائے ۔
 
پھر باری آئی برادرم طیب قیوم کی ۔ اس انداز سے غزل کے اشعار کو گنگنانا شروع کیا کہ لگا ہم کہیں استاد رفیع کی آواز میں وہ اشعار سن رہے ہوں ،اس سمے آنکھیں بند کریں تو ایسا ہی محسوس ہو اور آنکھیں کھول کر دیکھیں تو سامنے طیب قیوم گا رہے ہوتے ۔


پھر باری آئی غیاث صحاب کی ، پہلے حضرت ابوالکلام آزاد کا فلسفہ زندگی”زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا ” انہیں کے چند جملوں میں احباب کے سامنے رکھا ۔ چند اشعار پیش کیے اور ایک خوبصورت نثری نظم بھی پیش کی ۔ غیاث صحاب میرے بڑے بھائی ہیں سو ان کے اس فن سے میں پہلے ہی واقف تھا پر جو نثری نظم پیش کی وہ میں نے اسی محفل میں سنی ۔ ایسی شاندار نظم اور ایسے ایسے خوبصورت لفظوں کا استعمال کہ کوئی داد دینے سے نہ رہے ۔


اور پھر خیال یہی تھا کہ ابھی کسی کو کچھ پیش کرنے کے لیے سٹیج پر مدعو کیا جائے گا پر ایسا نہ ہوا ، جو ہوا لاجواب ہوا ۔ بشر صاحب نے بھرپور غزل کا مقطع پیش کیا کہ احباب نے زباں کھول کر داد دی اور ہر ہر شعر پہ پہلے سے زیادہ احباب پرجوش نظر آئے غزل کو ٹھیک طرح سے سنے اور پھر جواباً کچھ کہنے کے کیونکہ صاحبِ غزل ، غزل کے اشعار بیان کرنے کے ساتھ اس کا مفہوم بھی بیان کرتے تھے ۔


بشر صاحب ، غیاث سحاب اور طیب قیوم نے جو کچھ پیش کیا یو ں کہا جا سکتا ہے کہ سامعین کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا ۔ اب تھوڑی ضرورت تھی کہ کوئی ایسا کچھ پیش کرے کہ مسکرایا جائے ۔ برادرم ذیشان خورشید آئے ، احباب مسکرانا بھول گئے۔ مطلب کہ ان کو سنتے ہوئے بات قہقہوں پر آ پہنچی تھی ۔ محفل میں موجود شاید ہی کوئی ایسا ہوا ہو جو زور سے نہ ہنسا ہو ۔ ذیشان خورشید کو کامیڈین کہیں تو کوئی غلط بات نہیں ۔ یہ بہت غیر معمولی بات ہے کہ کوئی کسی دوسرے کے لبوں پر مسکراہٹ لے آئے اپنی زبان سے کچھ الفاظ ادا کر کے یا کوئی ایکٹ کر کے ۔ یہی قہقہوں کا عمل رکنے والا تھا کہ برادرم صغیر سٹیج پہ آئے ۔بہترین و خوبصورت آواز میں مزاحیہ اشعار پیش کیے کہ محفل میں پھر سے قہقہوں کی آواز یں بلند ہوئیں ۔
 
برادرم ثاقب نے بھی کچھ اشعار گنگنائے تو پھر حیرانگی ہوئی کہ ان کی اس خوبصورت آواز سے پہلے کیوں ہم بے خبر تھے؟ حاضرینِ محفل نے بہت داد دی ۔ نبیل آزاد نے بھی اپنی آواز سے احباب کو متاثر کیا اور داد سمیٹی ۔
اب باری آئی عمیر علی کی ۔ جن کے انتظار میں احباب پہلے سے تھے کیونکہ ان کی آواز سن کے اس پہ فدا بھی ہو چکے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ عمیر علی کا انٹر ویو جیو نیوز نے ان کے گھر میں لیا تھااور یہ بتایا تھا کہ آج کے اس رفیع کو تھوڑی سی رہنمائی ملے تو اس عہد کا رفیع بن سکتا ہے۔ عمیر علی کو خدا نے آنکھوں سے محروم کیا ہوا پر یہ خدا کی ہی قدرت ہے کہ وہ صاحبِ آنکھ سے زیادہ دیکھتے ہیں ۔اس طرح کہنا تبھی کسی کی سمجھ میں آئے گا جب وہ عمیر علی سے خود ملاقات کریں اور ان سے جو جی میں آئے پوچھیں وہ یقیناً بروقت درست جواب پائے گا ۔ عمیر علی کو خدا نے خوبصورت آواز سے نوازا ہوا ایسی خوبصورت آواز جسے ایک بار سنا جائے تو بار بار سننے کو من کرے ۔
فیض احمد فیض کی مشہور غزل کو اس انداز سے پڑھا کہ چار چاند لگا دیے ۔

غزل کا مطلع
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد (فیض احمد فیض)
اس کے بعد سعید راہی کی غزل کو بھی بہترین انداز سے پڑھا ۔
غزل کا مطلع 
یہ حقیقت ہے کہ ہوتا ہے اثر باتوں میں 
تم بھی کھل جاؤ گے دو چار ملاقاتوں میں ( سعید راہی)

سبھی حاضرین ِ محفل کا میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت اس محفل کو دیا۔ ایک ایک کر کے سب کا نام لینا مناسب نہیں آپ یوں سمجھیے کہ میں نے یوں ہی سب کا نام لیے شکر یہ ادا کیا ۔ خاص طور پر محترم مبارک علی صاحب اور ان کے فرزند عمیر علی کا بڑا احسان کہ ایک تو انہوں نے اپنا قیمتی وقت اس محفل کی نذر کیا اور دوسرا وہ اتنے دور سے سفر کر کے آئے ۔
دعا کہ خدا ہمیں شروع کیے گئے اس نیک مقصد میں کامیابیاں عطا فرمائے ۔ آمین
(اس بزم کو اگر مکمل تحریری صورت میں بیان کیا جائے تو تحریر طوالت اختیار کر جائے گی ، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے احباب کو شاید پڑھنے میں دشواری ہو ۔ سو میں نے مختصر اور مکمل احوال بیاں کرنے کی کوشش کی ہے) 

اپنا تبصرہ بھیجیں