229

تعمیر و اصلاحِ معاشرہ اور والنٹیئر ازم

فری یونیورسٹی آف برسلز میں جرنلزم کا داخلہ لیا تو سیکریٹری سے ڈچ زبان سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا . اس نے ایک ریٹائرڈ جج کا نام اور پتہ دیا جو بطور والنٹیئر بلا معاوضہ ڈچ زبان سکھاتے تھے .

میں چونکہ نیا تھا . منزل مقصود اور گرد و نواح سے بالکل نا آشنا تھا . یونیورسٹی کے سیکریٹری نے کمال مہربانی سے اسکا حل نکالا . اٹلس بک سے مختلف صفحات کی کاپیاں کر کے پھر سب صفحات کو اسکاچ ٹیپ کی مدد سے جوڑ کر بڑا سا نقشہ بنا دیا . اس پر متعلقہ جگہ کی نشاندہی کی اور مختلف بسوں کے روٹس اور سٹاپس کو ھائی لائٹ کر دینے کیبعد اچھی طرح سمجھا بھی دیا . اس سب سے فارغ ہو کر اس نے یورس صاحب کو فون کر کے میرے بارے میں انہیں آگاہ کیا اور انکا نمبر مجھے بھی درج کر دیا .

اگلے دن وقت مقررہ پر روزن دال (Rosen Dal…. وادیء گلاباں) پہنچ کر میں جج صاحب کے گھر پر بیل دے رہا تھا . انکا بیٹا مائیکل آیا اور مجھے اندر لے گیا . جج صاحب اور انکی زوجہ محترمہ انتہائی محبت اور شفقت سے ملے . مسٹر یورس کی عمر تقریباً اسی برس تھی ، ہاتھ میں ہلکا سا رعشہ مگر انتہائی بیدار مغز . باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے شب و روز رضاکارانہ خدمات میں صرف کر رہے ہیں . مولفین اور ادارے اپنی مطبوعات ارسال کرتے ہیں جنکو پڑھنے کیبعد ان پر تبصرہ لکھتے ہیں جو مختلف رسائل میں شائع ہوتے ہیں .

جب میں نے اپنے ملک پاکستان کا بتایا تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ میرا نام (Mr Joris Pierre) تمہارے ملک کی جنگی تاریخ میں درج ہے . میں مستعجب ہوا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک بیلج جج کا نام کیوں اور کیسے . بعد میں انہوں نے تفصیلات بتائیں کہ پینسٹھ کی جنگ کیبعد یونائیٹڈ نیشنز کی طرف سے مجھے بطور “سیز فائر کمشنر” پاکستان بھیجا گیا تھا . انہوں نے پاکستان میں اپنے دورے کے دوران مختلف تجربات و مشاہدات بتائے . اس دوران خاتون خانہ بھی گپ شپ میں شامل رہیں .

بعدازاں یورس صاحب مجھے اوپر مطالعے کے کمرے میں لے گئے جہاں ایک مہینہ تک دو سے اڑھائی گھنٹے یومیہ ڈچ زبان کی انٹینسیو سٹڈی میں وہ میرے اتالیق رہے .

کورس کے اختتام پر یونیورسٹی کے لینگویج ایگزام میں کامیاب ہونے کیبعد میں انکے پاس کیک لے گیا . دونوں میاں بیوی بہت خوش ہوئے ، خاتون نے کافی بنائی اور کیک کاٹا گیا اور یوں میری کامیابی انہوں نے اپنی فیملی میں سیلیبریٹ کی .

یورس پیئیر صاحب سے زبان سیکھنا نہایت خوشگوار تجربہ رہا . انتہائی ضعف اور رعشے کے باوجود رضاکارانہ خدمات اور غیر ملکی اجنبی کو اپنے گھر پر دو اڑھائی گھنٹے روزانہ وقت دینا اور اس بیچ مہمان کی طرح کافی و سینڈوچ کی تواضع بھی کرتے رہنا ، یقیناً قابل ستائش امر ہے . ایک فرد جو اعلی ترین عدلیہ کا حصہ رہا ہو اور اس نے یونائیٹڈ نیشنز کے مندوب کی حیثیت سے متحارب ھمسائیوں کے بیچ سیز فائر کی نگرانی کی ہو ، ریٹائرمنٹ کیبعد اسی سال کی عمر میں بھی یوں علم کی خدمت کر رہا ہو ، واقعی انکی بطور فرد و معاشرہ عظمت ہے اور اسکی ستائش و تحسین نہ کرنا بخل ہو گا .

وہ لوگ پہلے پروفیشنل ایتھیکس کے مطابق بھرپور کام کرتے ہیں بغیر تعصب ، سیاست و سازش کے ، پھر مدت ملازمت بڑھانے کی کوشش نہیں کرتے نہ کسی اور ادارے میں پرکشش مشاہیر کی تلاش میں لپکتے ہیں . بلکہ باقیماندہ زندگی سیر وتفریح کرتے ہیں ، پڑھتے پڑھاتے ہیں اور سیاسی سماجی و رضاکارانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں . جہاں کہیں ملک و معاشرے میں بہتری کی ضرورت ہو ، اخبارات و رسائل میں نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں بلکہ بہتری کیلیے بھرپور کردار ادا کرتے ہیں .

یونیورسٹی کے سیکریٹری کو ہی لے لیں جو کچھ اس نے کیا اس پر فرض قطعاً نہیں تھا . مگر وہ یہ سب کچھ نہ کرتا تو شاید مشکل جانتے ہوئے میں جج صاحب کے پاس جاتا ہی نہیں . یوں اس معاشرے کو اس تناظر میں دیکھ بھی نہ سکتا اور آج یوں انکی توصیف بھی نہ کر رہا ہوتا .

انفرادی و اجتماعی طور پر رضاکارانہ کارروائیوں سے معاشرے کو جس انداز میں وہ لوگ بہتر سے بہتر کر رہے ہیں نہ صرف تحسین کے قابل ہے بلکہ قابل تقلید اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے .

مگر یہ سب اپنے ہاں کیوں مفقود ہے ؟ ہمارے یہاں والنٹیئرازم کی سوچ پروان کیوں نہیں چڑھ سکی ؟ بلکہ پاکستان میں تو اوپر سے نیچے تک کے ملازمین میں پروفیشنلزم کی بھی کمی ہے . اس پر انشاء اللہ آئندہ پوسٹ میں بات کرونگا .

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں