208

اپنی خامیاں اپنے بروٹس تلاش کرو۔

اپنی خامیاں اپنے بروٹس تلاش کرو، آدمی کتنا ہی کریزی کیوں نہ ہو، ہر روز نا اپنا پسندیدہ رنگ پہن سکتا ہے، نہ روز اپنا من بھاتا کھانا کھا سکتا ہے اور نہ روزانہ اپنی پسندیدہ کتاب پڑھ اور میوزک سن سکتا ہے لیکن میاں نوازشریف میں نجانے ایسی کون سی کشش ہے کہ ان کے ذکر خیر بنا نہ بات بنتی ہے نہ جی لگتا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا کام دکھا دیتے ہیں کہ نہ نہ کرتے بھی قلم کوچہ ملامت کی طرف جانکلتا ہے مثلاً ایک تازہ ترین انٹرویو میں فرماتے ہیں….. ’’تمام فوجی سربراہان سے مخاصمت نہیں رہی، مشرف اور ان کے کچھ ساتھی میرے خلاف تھے باقی فوج نہیں۔‘‘ یہ ایک بے حد معصومانہ سی بات ہے۔

میراذاتی خیال ہے کہ میاں صاحب کا شہرہ ٔ آفاق داماد کیپٹن (ر) صفدر بھی اگر فوج میں رہتا اور آرمی چیف بن جاتا تو میاں صاحب کا اس کے ساتھ بھی پھڈا شروع ہو جاتا کیونکہ ہماری نام نہاد سیاسی اشرافیہ کا مائنڈ سیٹ ہی ایسا منحوس ہے۔ تین مثالیں پیش خدمت ہیں۔ پہلی بیگم نصرت بھٹو مرحومہ والی جب انہوں نے فرمایا تھا….. “BHUTTOS ARE BORN TO RULE” آج بدقسمتی سے بھٹوز کا نام اور نشان بھی باقی نہیں کیونکہ بلاول ملاوٹی بھٹو ہے لیکن مائنڈسیٹ دیکھ لیں۔ اس کے بعد چلیں آصف زرداری صاحب کی طرف جنہو ں نےجلسۂ عام میں دھاڑتے ہوئے فرمایا تھا….. ’’آپ لوگ تین سال کے لئے آتے ہو، ہم نے تو مستقل یہاں رہنا ہے۔‘‘

دراصل یہ ’’مستقل‘‘ والا کیڑا ہی مسلسل انہیں تنگ کرتا اور کاٹتا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں یہ اِدھر اُدھر کاٹتے رہتے ہیں اور پھر غلط جگہ کاٹ بیٹھتے ہیں تو ان کے پنجے اور جبڑےکاٹ کر انہیں کبھی ’’پھندے‘‘ کبھی ’’جدّے‘‘ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ مہذب جمہوریتوں میں کیونکہ کوئی ’’مستقل‘‘ نہیں ہوتا، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اس لئے ایسی نوبت نہیں آتی جبکہ مردود موروثیت اس کے برعکس بی ہیو کرتی، بھگتتی اور ذلیل و رسوا ہوتی ہے۔ یہ صرف نواز شریف یا ان جیسوں کا ہی مسئلہ نہیں، پورا عالم اسلام ملوکیت کے آغاز سے لے کر اب تک اس جان لیوا مرض کا شکار ہے اور سمجھنے کو تیار نہیں حالانکہ عبرت کی مثالیں گنی نہیں جاتیں۔ 

بنوعباس نے بنو امیہ کی قبریں تک اکھاڑ پھینکیں، سلاطین دہلی دیکھ لیں، ایک مغل شہزادی کو حسین باورچی سے شادی کرنی پڑی۔ حالیہ تاریخ میں شہنشاہ ایران آریہ مہر رضا شاہ پہلوی کی اولاد کا انجام دیکھ لیں۔ صدام حسین کے بیٹے مارے گئے اور بیٹیوں کی کسمپرسی دیکھ کر رونا آتا ہے۔ معمر قذافی جیسے مرد ِآہن کا جو واحد بیٹا بچ رہا، گینگرین کی وجہ سے اس کی انگلیاں کٹ چکی ہیں اور مناسب خوراک نہ ملنے پر شاکی ہے لیکن ہمارا یہ نام نہاد حکمران طبقہ سبق نہیں سیکھتا بلکہ سچ پوچھیں تو انہیں اپنی اولادوں پر بھی رحم نہیں آتا۔ ایک تو یہ خود ابنارمل اور لیلائے اقتدار کے مجنوں ہوتے ہیں….. اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ سادہ سی بات جو مغرب کو سمجھ آگئی کہ سدا بادشاہی صرف اسی کی ہے جوخالق بھی ہے، مالک بھی اور رازق بھی….. الخافض بھی وہ، الرافع بھی وہ، المعز بھی وہ، العظیم بھی وہ، العلی بھی وہ، الجلیل بھی وہ، القادر بھی وہ، المقتدر بھی وہ، الاول بھی وہ، الآخر بھی وہ اور اس کے سوا سب فنا، سب خاک و راکھ کی ڈھیریاں بلکہ غور سے دیکھیں تو وہ بھی نہیں۔
آرمی چیفس کے ساتھ تعلقات کے حوالہ سے اسی حالیہ انٹرویو میں میاں صاحب مزید کہتے ہیں ’’اگر کوئی قانون کی حکمرانی پر یقین نہیں رکھتا تو اس سے اتفاق نہیں کرتا‘‘ یہی تو رونا ہے میاں صاحب کہ آپ لوگ شعوری نہ سہی لاشعوری طور پر خود کو ’’قانون‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ آپ کی اسلام آباد تا لاہور چار روزہ سرکس کے دوران آپ کی تقریریں سن کر میرا مجموعی تاثر یہ تھا کہ آپ خود کو ریاست، حکومت، آئین، قانون، جمہوریت، استحکام، ترقی غرضیکہ سب کا لافانی مجموعہ سمجھتے ہیں اور اسی لئے چوہدری نثار علی خان کو مسلسل آپ کے کان میں سرگوشی کرنا پڑتی ہے۔’’سیزر! تم فانی انسان ہو‘‘’’سیزر! تم فانی انسان ہو‘‘’’سیزر! تم فانی انسان ہو‘‘معاف کیجئے بدتمیزی ہوگئی….. کہاں سیزر کہاں آپ لیکن ایک مماثلت بہت خوفناک ہے۔ 44 قبل از مسیح جب سیزر کا شہرہ ٔ آفاق قتل ہوا تو اسے بھی ’’قتل گاہ‘‘یعنی سینیٹ میں جانے سے روکنے کی بہت کوشش کی گئی۔ سیزر کو بھی سیانوں نے وارننگز دیں۔ 
13جولائی کو پیدا ہونے والے سیزر کو Perpetual Dictator ، Father of Nation, Censor کے ساتھ ساتھ Pontiff Maximus جیسے خطاب مل چکے تھے لیکن اتنا بڑا جینئس ایک معمولی سے ٹریپ میں پھنس گیا۔ اسے ثبوت دیئے گئے۔ بدشگونیاں بتائی گئیں۔ قتل گاہ یعنی سینیٹمیں جانےسے صرف ایک رات پہلے، اس کی شریک ِ حیات Calpurnia نے اسے خواب میں قتل ہوتے دیکھا اور روکا “Donʼt go into the office today, Dear.” اسے واضح لفظوں میں کہا گیا “Beaware the ides of march.”دوستوں نے منتیں کیں ’’سیزر! آج آفس نہ جائو‘‘سیزر نے کچھ دیر کے لئے سوچا بھی لیکن اس کے ’’دوست‘‘ بروٹس نے اسے شہ دی اور اس نے کسی کو بھی سننے سے انکار کردیا اور قتل گاہ پہنچ گیا۔ خنجر کے 23زخموں کا آغاز سینیٹر Servilius Casca کے پہلے وار سے ہوا۔ اپنے ہی خون میں شرابور سیزر نے باوقار انداز میں موت کو گلے لگایا۔ سکرٹ ٹانگوں کے گرد مضبوطی سے لپیٹ لیا تاکہ ستر مجروح نہ ہو۔ کچھ مورخین کے مطابق اس کے آخری الفاظ تھے۔ “Et Tu Brutus.”اپنی خامیاں اور اپنے بروٹس تلاش کرو ورنہ…..’’لکھا ہے دیوارِ چمن پرپھول نہ توڑو لیکن تیز ہوا اندھی ہے‘‘۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: justify; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
( شکریہ حسن نثار ڈاٹ پی کے)

اپنا تبصرہ بھیجیں