217

لفظ اضافی ہوتے ہیں۔

javed chaudary urdunama

نیویارک کے ایک اطالوی ریستوران میں نوجوان لڑکی نے نوجوان لڑکے کی آنکھوں میں جھانکا اور آہستہ سے سرگوشی کی ”محبت گفتگو ہے“ اس کے لہجے میں یقین کی کھنک تھی‘ نوجوان لڑکے کی آنکھوں کی پتلیوں اور پپوٹوں کے درمیان سرخ ڈورے سے بنے اور یہ ڈورے آہستہ آہستہ پھیلتے چلے گئے۔قدرت نے انسان کے آئی کانٹیکٹ میں عجیب جادو رکھا ہے‘ دنیا میں جب بھی کوئی شخص پیار سے‘ محبت سے یا عقیدت سے دوسرے کی آنکھ میں جھانکتا ہے تو آنکھوں کی روشنی میں‘ جذبوں کے سرخ ڈوروں میں اور دل کی بے لگام‘ بے ربط دھڑکنوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

انسان قدرت کا سب سے بڑا اداکار ہے‘ یہ جھوٹ بولنے یا چھپانے پر آ جائے تو یہ اپنے آپ سے بھی چھپ جاتا ہے‘ یہ خود سے جھوٹ بول لیتا ہے‘ یہ اتنا بڑا اداکار ہے یہ دل کی بات بھی اپنے دماغ تک نہیں پہنچنے دیتا‘ یہ اپنا منصوبہ اپنے دل پر بھی آشکار نہیں ہونے دیتا لیکن یہ اتنا بڑااداکار ہونے کے باوجود اپنی آنکھوں سے نہیں چھپ سکتا‘انسان کی آنکھیں جسم کا واحد عضو ہیں جو چھپا نہیں سکتیں‘ جو جھوٹ نہیں بول سکتیں‘ انسان کیا سوچ رہا ہے؟ یہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس کی آنکھ میں آ جاتا ہے اور یہی وجہ ہے دنیا کے تمام جانور انسان کو اس کی آنکھ سے سمجھتے ہیں۔ انسان کے سامنے شیر کھڑا ہو یا چڑیا تمام جانور اور پرندے انسان کی آنکھ میں جھانکتے ہیں اورفوراً اس کی ذات میں چھپی حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔
انسان جس قدر شیطان‘ بدفطرت اور مکار ہوتا جاتا ہے جانور اور پرندے اس سے اسی قدر دور ہٹتے جاتے ہیں جبکہ یہ بغیر ڈرے‘ بغیر جھجکے نیک لوگوں کی پلیٹ سے بوٹی تک اٹھا لیتے ہیں‘ یہ ان کے کندھوں پر بیٹھ کر دانا چگتے ہیں اور انہیں ذرا بھر خوف محسوس نہیں ہوتا‘کیوں؟ کیونکہ یہ برے انسان اور اچھے انسان کو اس کی آنکھوں سے پڑھ لیتے ہیں چنانچہ اگر اچھے انسان نے ہاتھ میں تلوار بھی اٹھا رکھی ہو تو جانور اور پرندے اس سے خوفزدہ نہیں ہوتے اور برے انسان کے چہرے پر سمندر جتنی وسیع مسکراہٹ بھی ہو تو بھی پرندے اور جانور اس سے محفوظ فاصلے پر رہتے ہیں۔ انسان کی آنکھ میں اتنی جامع کمیونیکیشن پاور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگرانسان کو زبان نہ دی ہوتی تو بھی یہ صرف آنکھ سے اپنے تمام جذبے‘ اپنے سارے احساسات اور اپنی ساری ضرورتیں دوسروں تک ”کمیونی کیٹ“ کر لیتا۔ انسان دنیا کی ہر چیز سے چھپ سکتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں الف ننگا ہوتا ہے۔

میں واپس نیویارک کے اطالوی ریستوران کی طرف آتا ہوں۔ لڑکی‘ لڑکی تھی چنانچہ وہ دنیا کی تمام لڑکیوں کی طرح گفتگو کو محبت سمجھ رہی تھی۔ اس کا خیال تھا محبت اظہار کا نام ہے محبت لفظوں‘ فقروں اور گھنٹوں تک پھیلی گفتگو کا نام ہے‘ لڑکی درست سوچ رہی تھی دنیا کی ہر عورت گفتگو کو محبت سمجھتی ہے‘ عورت سمجھتی ہے جب تک مرد کی محبت قائم رہتی ہے اس وقت تک اس کی زبان حرکت میں رہتی ہے‘ وہ لفظوں اور فقروں کے ذریعے اپنی محبت‘ اپنی چاہت کا اظہار کرتا ہے اور جس دن مرد کی زبان کو بریک لگ جاتی ہے اس دن محبت کا رنگ اڑ جاتا ہے۔

اس دن قربت کافی کا خالی کپ‘ سگریٹ کی خالی ڈبی اور خوشبو کی خالی بوتل بن جاتی ہے۔اس دن انسان‘ لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں لیکن جس طرح خوشبو کے بغیر بوتل‘ سگریٹ کے بغیر ڈبی اور کافی کے بغیر کپ کچھ نہیں ہوتابالکل اسی طرح قربت بھی محبت کے بغیر خالی خالی‘ بے رنگ بے رنگ سی ہو جاتی ہے۔ دنیا کی تمام عورتوں کا خیال ہے جس دن مرد ان کی موجودگی میں بور ہونے لگے‘ یہ گفتگو کی بجائے کتابوں‘ ٹیلی ویژن سکرین اور کھڑکی کے شیشے پر جمے موسموں میں دلچسپی لینے لگے اس دن اس کی محبت کی کافی کا کپ خالی ہوجاتاہے اور جس دن عورت ماں جیسی حرکتیں کرنے لگے۔

اسے مرد کی جگہ چھتری‘ ٹفن‘ لحاف‘ آٹے کے کنستر اور تار پر لٹکے کپڑوں کی زیادہ فکر ہونے لگے اور وہ شام کی چائے کے دوران کریلوں کا نرخ ڈسکس کرنے لگے یا اسے سیمنٹ کی مہنگائی کی ٹینشن ہونے لگے اس دن عورت کا کپ‘ عورت کی بوتل بھی خالی ہوجاتی ہے۔ یہ نوجوان لڑکی بھی گفتگو کو محبت سمجھتی تھی چنانچہ یہ پچھلے دو گھنٹوں سے مسلسل باتیں کر رہی تھی اور نوجوان لڑکا اس کی باتوں کی رو میں لڑھکتا‘ بہتا چلا جا رہا تھا۔ گرم باتوں اور ابلتے فقروں کے دوران کھانا کب ٹھنڈا ہوا اور ٹھنڈے سافٹ ڈرنک کب گرم ہوئے دونوں کو کچھ خبرنہیں تھی جبکہ ان سے میز بھر کے فاصلے پر ایک ادھیڑ عمر جوڑا بیٹھا تھا۔

یہ دونوں حضرت نوح ؑ کے دور کے انسان لگتے تھے‘ بوڑھی اماں کی گردن سے جھریوں کی جھالریں لٹک رہی تھیں اور کانوں کی لوؤں پر مردوں کی مونچھوں کے برابر بال تھے اور اس کا سر طوفان میں پھنسی چڑیا کی طرح جھرجھری لے رہا تھا اور بابا جی اس قدر بوڑھے تھے کہ گمان ہوتا تھا ان کی عمر کے تمام دریا نہ صرف سوکھ چکے ہیں بلکہ ان کی کی جگہ شہر آباد ہو چکے ہیں۔ لڑکی نے جب پہلی بار بابا جی کے چہرے کو دیکھا تو اس نے نوجوان کا ہاتھ دبا کر سرگوشی کی ”یہ بابا اتنا بوڑھا ہے کہ یہ خود اپنا باپ لگتا ہے“ نوجوان نے یہ سن کر اتنا زور دار قہقہہ لگایا کہ اس کے حلق میں موجود لائم سوڈا اس کے نتھنوں سے باہر ابل گیا۔ یہ ادھیڑ عمر جوڑا نوجوان جوڑے کے بالکل برعکس تھا۔

یہ بھی دو گھنٹے سے ریستوران میں بیٹھا تھا لیکن اس کی میز کی پلیٹوں‘ چمچوں اور کانٹوں تک نے ان کی آواز نہیں سنی تھی‘ یہ دونوں خاموشی سے آئے‘ میز پر بیٹھے‘ اشارے سے مینیو کارڈ مانگا‘ آرڈر دیا‘ ان کا کھانا آیا اور یہ دونوں چپ چاپ کھانے لگے‘ دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھ میں جھانکنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ لڑکی کو یہ جوڑا برا لگ رہا تھا چنانچہ اس نے لڑکے کے کان میں سرگوشی کی‘ ان دونوں کی محبت مر چکی ہے‘ یہ محض دو انسان ہیں‘ بس کی ایک سیٹ پر بیٹھے ہوئے دو مختلف مسافر۔ ان کی کافی کا کپ‘ ان کی سگریٹ کی ڈبی اور ان کی خوشبو کی بوتل خالی ہو چکی ہے۔

لڑکی کا کہنا تھا وہ ایسی زندگی پر موت کو فوقیت دے گی‘ وہ جس دن ایک میز پر بیٹھیں گے اور ان کی گفتگو میں خاموشی کے وقفے طویل ہو جائیں گے وہ اس دن خود کشی کر لے گی۔ لڑکا اس کی قطعی سٹیٹمنٹ سے خوفزدہ ہو گیا‘ اس نے لڑکی سے پوچھا ”تمہاری نظر میں محبت کیا ہے“ لڑکی نے سرگوشی میں جواب دیا ”محبت گفتگو ہے“۔نیویارک کے اس اطالوی ریستوران کا کھانا ختم ہو گیا‘ لڑکی نے بوڑھے جوڑے کی طرف دیکھا اور دونوں اپنی اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

بوڑھے جوڑے کی میز دروازے کے راستے میں تھی‘ یہ دونوں زیر لب ”جچ جچ“ کرتے ہوئے بوڑھے جوڑے کی میز کے قریب پہنچے‘ لڑکی نے رحم سے بھری آخری نظر بوڑھے پر ڈالی اوراس کے قدم زمین پر جم کر رہ گئے۔ اس نے دیکھا باباجی اور اماں جی نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور دونوں ایک ایک ہاتھ سے کھانا کھا رہے تھے‘ لڑکی بوڑھے جوڑے کی میز پر آ کر رک گئی‘ اماں جی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا‘ اس کی جھریوں میں اس طرح حرکت ہوئی جس طرح رات کے اندھیرے میں خرگوش اپنی جگہ بدلتا ہے اور اس کی رگڑ سے جھاڑیاں کروٹ لیتی ہیں یا پھر رات کا کوئی پرندہ صبح کے خوف سے درخت سے اپنا رشتہ توڑتا ہے اور درخت کی شاخیں اس کے فراق میں دیر تک کپکپاتی رہتی ہیں۔

اماں جی کی جھریوں میں بھی سرسراہٹ ہوئی اور ممتا کی دعا جیسی چھوٹی سی‘ موہوم سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آ گئی‘ اس نے پوپلے منہ سے لڑکی کو ”سدا سہاگن“ کی دعا دی‘ دعا کی تائید میں بابا جی نے بھی سر ہلایا اور دونوں کو گڈ نائیٹ کہہ دیا۔ لڑکی بھاری قدموں سے ریستوران سے باہر نکل گئی‘ باہر سڑک پر شور بھی تھا اور روشنیوں کا سیلاب بھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے لڑکے کا ہاتھ تھاما اور چیختی ہوئی آواز میں بولی ”جیمز‘میرا فلسفہ غلط تھا‘ محبت گفتگو ہے لیکن محبت کی انتہا خاموشی“۔ جیمز نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ لڑکی بولی ”اماں جی اور بابا جی نے دو گھنٹے سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا تھا‘ دونوں ایک ایک ہاتھ سے کھانا کھا رہے تھے‘ کیا یہ محبت کی انتہا نہیں؟ جیمز مجھے محسوس ہوتا ہے انسان کی محبت میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب خاموشی گفتگو سے ہزارگنا قیمتی ہو جاتی ہے‘ جب انسان ایک دوسرے کی چپ کو انجوائے کرنے لگتا ہے‘ جب وہ محبت کے اظہار کیلئے لفظوں اور فقروں کی محتاجی سے نکل جاتا ہے“۔

جیمز نے ہاں میں گردن ہلائی اور نرم آواز میں بولا ”ہاں یہی وجہ ہے انسان جب تک اللہ کے دربار میں لفظوں اور فقروں کے کشکول لے کر جاتا رہتا ہے اس وقت تک اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں لیکن جس دن اس کی دعائیں‘ اس کی التجائیں گونگی ہو جاتی ہیں‘ وہ حسرت سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور سر زمین کی طرف جھکا دیتا ہے تو اس دن اللہ تعالیٰ اس کی ساری التجائیں سن لیتا ہے“۔ جیمز رکا اور اس نے کہا ”شائد یہی وجہ ہے دنیا کی تمام مقدس عبادت گاہوں میں خاموشی ہوتی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ محبت‘ عقیدت اور عبادت کی دنیا میں لفظ اضافی ہوتے ہیں‘وہاں خاموشی دعا ہوتی ہے“۔

(شکریہ جاوید چوہدری ڈاٹ کام)

اپنا تبصرہ بھیجیں