Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
201

میلی گنگا

بچپن میں فلم بینی کا کوئی ایسا شوق ہرگز نہیں رہا کہ جو بھی فلم سینما یا تھیٹر میں آئی اس کو دیکھنا ضروری سمجھا ہو۔ سکول اور کالج کے ادوار میں کچھ دوست احباب اس شوق سے ضرور مستفید ہوتے رہے۔اس ذریعے سے بہت سی فلموں کی کہانیاں خیالات کو مہمیز دیتیں اور معاشرتی معاملات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی۔ عام طور پر یہ سرگرمی دوستوں کی محفل میں انجام پاتی۔ سکول وکالج کے ادوار سے ہی کتب بینی کا ایسا شوق تھا کہ جو کتاب بھی ہاتھ لگ جاتی اس کو پڑھ کر ہی چھوڑتے چاہے اس کا عنوان کوئی بھی ہوتا۔

حال ہی میں ایک انڈین فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔اس فلم کو دیکھ کر ذہن بچوں کے جنسی استحصال کی طرف چلا گیا اور بہت سی ایسی باتیں جو ان کیسز کے دوران نظروں سے اوجھل رہیں سامنے آئیں اور ایک ترتیب معاشرتی حوالے سے دماغ میں گردش کر گئی۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جس میں معاشرے کے ان کرداروں کو اجاگر کیا گیا ہے جو کسی بھی معاشرے کیلئے بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے بہت سی ایسی مثبت باتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں جو معاشرے کی سمت متعین کر سکتی ہیں۔ اس دور میں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ایک مقصد بن چکا ہے۔ رشتوں کی شناخت ختم ہو چکی ہے نتیجتاً وہ اقدار جو کبھی ہمارا اثاثہ تھیں وہ رو بہ زوال ہیں۔ بچوں کی تعلیم کیلئے کوئی ٹھوس انتظام نہیں ضرورت کے وقت کچھ ادارے حرکت میں آتے ہیں اور یہ دیکھے بغیر کہ یہ بچہ کسی معذور یا بوڑھے والدین کا واحد کفیل ہے ان اداروں کے خلاف کارروائی کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے جو ان بچوں کی روزی کا زریعہ ہوتے ہیں۔ نتیجتاً بچے گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چوری اور ڈکیتی کا سہارا لیتے ہیں اور غیر مناسب سرگرمیوں کا جزو بن کر رہ جاتے ہیں۔

فلم کا نام پیج تھری ہے جو کہ بالی ووڈ کی پیشکش ہے۔ یہ ایک ریٹائرڈ کرنل کی بیٹی کی کہانی ہے۔ یہ لڑکی اپنی عملی زندگی کے آغاز کے لئے صحافت کا انتخاب کرتی ہے۔ایک اخبار میں معاشرے کے اہم لوگوں کی زندگی کے بارے میں لکھنے کا کام سونپا جاتا ہے تاکہ ان لوگوں کو معاشرے میں متعارف کرایا جائے اور اخبار کے لئے ریونیو حاصل کیا جائے۔ جب یہ لڑکی ان لوگوں کی زندگی کو کریدتی ہے تو ان لوگوں کی کچھ منفی سرگرمیاں بھی سا منے آتی ہیں۔ وہ ان معاملات پر بھی بلاخوف و خطر قلم اٹھاتی ہے۔ یہ تمام واقعات اخبار کے ایک صفحہ پیج تھری کی زینت بنتے ہیں۔فلم میں سوسائٹی کے ایسے کرداروں کو نمایاں کیا گیا ہے جن کا واسطہ ہماری روزمرہ کی عملی زندگی میں ارباب اختیار، اعلیٰ کاروباری اداروں کے مالکان اور میڈیا کے ذمہ داران کی صورت میں پڑتا رہتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح میڈیا میں آنے والی لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے؟ ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر سرمایہ دار ان کا جسمانی استحصال کرتے ہیں۔ یہ سب فلم اور ڈراموں میں کام کرنے والی لڑکیوں کے ساتھ کس طرح ہوتا ہے اس کو فنکارانہ مہارت سے فلمایا گیا ہے۔

فلم میں ایک مشہور کاروباری شخصیت کے گھر سے اغواشدہ کچھ بچے بازیاب کرائے جاتے ہیں۔ ان بچوں کو ایک مشہور سماجی کارکن کے ادارے سے اغواء کیا جاتا ہے۔ ان بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ صحافی لڑکی ان لوگوں کو ایک پولیس آفیسر اور اپنے ایک صحافی ساتھی کی مدد سے گرفتار کراتی ہے مگر پولیس ان لوگوں کے اثرورسوخ کی وجہ سے زیادہ دیر زیر حراست نہیں رکھ سکتی۔ جس کی ایک وجہ ان لوگوں کا میڈیا کو سرمایہ کی فراہمی ہے۔ اس دو عملی کی وجہ سے یہ لڑکی پیج تھری کیلئے لکھنا بند کر دیتی ہے۔ اس کے بعد کرائم بیٹ میں آتی ہے تو یہاں بھی اسے ایسے ہی کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مایوس ہو کر وہ صحافت سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے۔ اس کا ایک صحافی ساتھی اسے دوبارہ ادارے میں لے آتا ہے اور کہتا ہے کہ سچ ضرور لکھو لیکن حالات کا رخ دیکھ کر۔

یہ فلم واضح کرتی ہے کہ میڈیا بھی بہت سے معاملات میں پابند سلاسل ہے۔ ملک کوئی بھی ہو یہ پابندی ہر دور میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر رہی ہے۔ کمزور کی عزت محفوظ نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود طاقتور عناصر کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ قانون اپنا رسوخ رکھتے ہوئے بھی بےبس ہو جاتا ہے۔ یہ کہانی کسی مخصوص معاشرے کی نہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں اس طرح کے کردار موجود ہیں۔ موت تو کسی کو یاد نہیں جیسے۔ اس فلم میں کچھ پوائنٹس ہیں اگر ان پر توجہ کی جائے تو پاکستان میں ہونے والے بچوں سے زیادتی اور قتل کے کیسز کو حل کیا جا جا سکتا ہے۔

اردگرد کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان میں ایک مایوسی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جس ملک میں قانون کی عملداری صرف اور صرف کمزور تک محدود ہو۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کرپٹ لوگوں کے رکھوالے ہوں۔ بچوں کا جنسی استحصال اور قتل عام ہو اس ملک میں جتنی بھی ترقی ہو جائے وہ ترقی نہیں تنزلی ہے۔ جہاں ملک کے لیڈر لٹیرے ہوں۔ کرپشن عام ہو۔ اس ملک کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ آج ملکی نیک نامی کیلئے ہمیں مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ معاشرے کے بدنما داغوں کو دور کرنے کے لئے ایک ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو ملک کو صحیح رخ عطا کر سکے۔


یہ سچ ہے کہ جب بھی الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا ان معاملات کیلئے جہد کرتا ہے اس کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے ناخداؤں کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ ان طاقتور عناصر کو بچانے کیلئے بعض اوقات بے گناہوں کو تختہ دار کی زینت بنانا پڑتا ہے۔ آخر یہ سب کب تک ہو گا؟ اب کچھ پرانے چہرے نیا پاکستان بنانے جا رہے ہیں۔ اس میں قصور ہماری عوام کا بھی ہے جو ہر پانچ سال بعد اس سیاسی مافیا کیلئے بےوقوف بننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ جب تک احتساب بےداغ کردار کے مالک افراد کے ہاتھوں میں نہیں آتا یہ گنگا میلی ہوتی رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں