215

قُبول اسلام۔

rizwan khalid chaudry urdunama

مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں لادین رہا۔ خدا اور مذہب میں میرا یقین کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔ ۔ شاید میری مذہب اور خدا سےمتعلق معلومات اور علم کا بنیادی ذریعہ جمعہ کا خطبہ تھا۔

ہمارےمولانا جب خطبے سے پہلے تقریر کرتے تو اُنکےسنائے ہوئے مذہبی قصے کہانیاں میرے دل میں بہت سوال پیدا کیا کرتے۔ لیکن سوال پوچھنےکی ہمارے معاشرے میں روایت ہی نہیں تھی جُمعے کے خُطبوں میں سُنے گئے قصّوں نے میرے دل ودماغ نےایک عجیب الخلقت خدا کا خاکہ تشکیل دیا جو ایک دم غصے میں آسکتا ہے۔ اور اچانک مہربان ہو کر گھر بیٹھے رزق دے سکتا ہے۔ جو مجھے پیدا کرنے سے پہلے یہ طےکئے بیٹھا ہےکہ میں جہنمی ہوں یا جنتی اور اگر اُس نے جہنمی لکھ دیا ہے تو مجھے مرنےسے پہلے گناہوں کی دلدل میں دھکیل دے گا، بصورتِ دیگر مجھ سے کوئی ایسا کام کرائے گا کہ میں بخشا جاؤں۔

میں نے نتیجہ اخذ کیا کہ خدا بہت جذباتی ہے، ہر جمعےسوچتا کہ اس بار مولانا سے اپنےخدشات سے متعلق سوال کرونگا لیکن ہمت نہ پڑی۔ پھر ایک باراسی سے ملتاجلتا سوال ہمارے علاقےکےایک معزز بزرگ جن کا نام محمود تھا اٹھا بیٹھے پھرکیا تھا مولانا نےان پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا۔ حالانکہ وہ تہجداوراشراک کی نمازٰیں بھی مسجد میں ادا کرتے تھے۔

سارا علاقہ محمودصاحب کےخلاف ہوگیا، نہ جانے کیسے وہ جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ اس واقعے نے مجھےمذہب سے اور دور کردیا اورخداسے بھی شکوہ بڑھا کہ کیسے مڈل مین اپنے راستےمیں بٹھا دئیے ہیں، جو انکے بتائے ہوئے خدا کی طرح چھوٹی سی بات پر ناراض ہوجائیں تو  کہیں پناہ نہیں ملتی۔

خدا سے ناواقف رہنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی رہی ہو کہ خدا کے مڈل مین قرآن کوعربی میں تو پڑھاتےہیں لیکن اس کا مفہوم اردو میں سمجھنےکی ترغیب نہیں دلاتے۔ بلکہ دانستہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ تعلیم کے سلسلے میں دیگر ممالک جانا ہوا تو مُختلف مذہبی معاشروں کو قریب سے دیکھا۔ جیسے اسلامی مُعاشرے میں مولانا ایک اسلامی دائرہ لیئے بیٹھا ہے اور مُختلف لوگوں کو  پرکھ کر یا تو دائرے کے اندر قرار دیتا ہے یا باہر۔ ایسا ہی ہر مذہب میں کوئی نا کوئی گیٹ کیپر دیکھا، عیسائیت میں خدا کے راستے میں پوپ اور بشب بیٹھے نظر آتے ہیں، یہود میں ربی  ہندوازم میں پنڈت غرض یہ کہ ہر مذہب میں ایک ملتی جُلتی وظع قطع کا مڈل مین دیکھا۔

اس پس منظر میں مارکس کو پڑھ کر دل و دماغ بالکل ہی مذہب کے خلاف ہوگیا۔ پھرکوئی ایک دہائی بعد ایک کانفرنس کے سلسلےمیں مصر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعۃ الاظہر جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر لیکچر کےآخر میں کانفرنس کے شرکا علما سے اس سے بھی زیادہ سخت سوال کر رہے تھے، جو بچپن سے میرے دل میں تھے اورعالم جو دراصل جامعۃ الاظہر کے پروفیسرز تھے ہر سوال کا خندہ پیشانی سے جواب دے رہےتھے۔

ایک صاحب نے وہی سوال پوچھ لیا جس کی بنیاد پر میرے علاقے کے مولانا نے محمود صاحب کو گستاخ قرار دے دیا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب پروفیسر نے کہا میری خواہش تھی کوئی یہ سوال کرے اور پھر قرآن کی آیات سے سوال کاجواب دیا۔

اب میری بھی ہمت بڑھی، میں نے پوچھا، جناب جب خدا جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے جسے چاہے ہدایت دے، جسے چاہے گمراہی میں مبتلا کر دے، تو میں اسے مانوں نہ مانوں کیا فرق پڑتا ہے۔

پروفیسر صاحب تھوڑے سے مسکرائے اور بولے قُرآن میں احکامات دو طرح کے ہیں

ایک مُحکمات

اور دوسرے مُتشابہات۔

ضروری ہے کہ مُتشابہات کو مُحکمات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے

جن آیات میں یشا ء اور تشاء آتا ہے

ان کا ترجمہ آپکے ہاں مُتشابہات ومُحکمات کے عام اُصول کے تحت نہیں کیا جاتا

اس لئے انڈیا اور پاکستان کےمسلمان خدا کے تصور کو غلط سمجھتے ہیں۔

اس کا عربی مفہوم یہ ہے کہ جو چاہتا ہے اللہ اسے عزت دیتا ہے

اور جو چاہتا ہے اللہ اسے ذلت دیتا ہے۔

جو چاہتا ہے اللہ اسے ہدایت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا اس آیت کو آپ ایک اور آیت کے مطابق دیکھیں جو مُحکمات میں سے ہے

جس کا مطلب ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہےجس کے لئے وہ کوشش کرے۔

میں نے پھر بودا سا سوال کیا کہ

میں نے تو ہمیشہ عُلماء سے یہی سُنا ہے کہ اللہ توفیق دے تو ہی مُجھ سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے۔

کانفرنس روم میں قہقہہ گُونجا

پھر پروفیسر صاحب نے سورہ رعد کی آیت پڑھی کہ

اللہ لوگوں میں کُچھ نہیں بدلتا جب تک وہ خود میں تبدیلی نہ لائیں۔

میں پروفیسر صاحب کا جُملہ مُکمل ہونے سے پہلے بول پڑا کہ یہ سب جو میں اس کانفرنس میں دو دن سے سُن رہا ہوں

اُس اسلام سے بالکُل مُختلف ہے جو میں آج تک عُلماء سے سُنتا آیا ہوں۔

اس پر پروفیسر صاحب نے سورہ بقرہ کی آیت پڑھی،

اور جب اُن سے کہا جائے اللہ کے اُتارے پر چلو تو کہیں گے ہم تو اُس پر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔ اگرچہ اُن کے باپ دادا نہ کُچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت۔۔

کہنے لگے قرآن اللہ نے میرے اور تُمہارے لیے ہی اُتارا ہے، اسے خود پڑھتے اور سمجھتے کیوں نہیں، میرے یا کسی بھی مولوی کے مہتاج کیوں ہوتے ہو۔ قرآن عین انسانی عقل کے مُطابق بات کرتا ہے۔

میں نے پھر سوال کیا کہ مُجھے تو آج تک علماء نے یہی بتایا ہے کہ ایمان اور استدلال یعنی ریزن الگ الگ چیزیں ہیں
اور ریزنگ بھٹکا دیتی ہے۔

اس بار پروفیسر صاحب نے انڈین اور پاکستانی عُلماء کی کم علمی اور تنگ نظری کی وجوہات پر بات کی اور سورہ انفال کی ایک آیت پڑھی کہ

اللہ کی نظر میں وہ جانوروں سے بھی بد تر ہیں جو گُونگے بہرے بنے رہتے ہیں اور استدلال نہیں کرتے۔

بس پھر میں جیسے گُونگا ہو گیا۔ میرےسامنےسےجیسے اندھیرےچھٹ گئے۔ میں نے بڑے خلوصِ دل سےکلمہ پڑھا کہ واقعی میرا خدا تو بالکل  ویسا ہے، جیسا ایک خالق کو ہونا چاہیے۔

کانفرنس کے اختتام پر پروفیسر صاحب نے قرآن کی انگلش ترجُمے والی کاپی گفٹ کی ۔ ہر آیت مُجھے خود سے مُکالمہ کرتی سنائی دیتی۔

کچھ عرصہ بعد ایک نومسلم گورے سےکینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی۔ وہ اسلام کی پہلی دو صدیوں کے حوالے سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ اُس کے ساتھ مل کر کُچھ سال اسلام کی ابتدائی اُٹھان اور پھر اس میں فرقے بنتے ٹُکرے ہوتے تاریخ کی نظر سے دیکھا۔ یہ بھی دیکھا کہ کیسے لوگ قُرآن جیسا خزانہ چھوڑ کر روایات کی تلاش میں دہائیوں تک بھٹکتے پھرے۔

آج شییئہ کڑوروں میں ہیں

اور کڑوروں ہی سنّی

کہیں مالکی ہیں

کہیں حمبلی اور کہیں شافعی۔

ہر فرقے میں مزید تقسیم اور فرقے در فرقے ہیں۔

افسوس کہ ایسے لوگ کہیں مُشکل سے نظر آتے ہیں

جو نہ وہابی ہوں نہ دیو بندی

نہ بریلوی ہوں نہ اہل ہدیث

جن کا دین صرف اسلام ہو۔

جو قرآن و سُنّت میں استدلال کریں۔

سورہ یونس کی سویں آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا استعمال اور استدلال ایمان کی بُنیادی شرط ہے ۔ اب میں فرقوں میں بٹے اپنی اپنی انا میں مدہوش مُسلمانوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ کیا یہ دُنیا بھر میں ہوتی اپنی ذلّت کو نہیں دیکھتے، کیا یہ اب بھی نہیں جان پائے کہ اللہ کی رسی چھوڑ کر یہ ٹُکریوں میں بٹ چُکے ہیں۔ شاید دل مُردہ ہونے سے اپنی ذلّت کا احساس ہی نہ ہوتا ہو۔

سورہء حج میں اللہ کہتے ہیں

پس کیا وہ زمین میں نہیں پھرے تاکہ انہیں وہ دل ملتے جن سے وہ عقل سے کام لیتے یا ایسے کان نصیب ہوتے جن سے وہ سن سکتے۔

پس آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ( سورہء حج آیت نمبر سنتالییس)

اس آیت کے عین مُطابق

اللہ کی زمین میں پھرنے اور مُشاہدے نے دل کی آنکھیں کھول کر دوباررہ مُسلمان تو کر دیا لیکن اب میں بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں کہ میرے اردگرد 

کوئی سُنّی ہے کوئی شیّئہ
کوئی دیوبندی ہے کوئی بریلوی
کوئی اہل حدیث ہے کوئی مُقلّد
کوئی اہلِ قُرآن ہے کوئی غیر مقلّد۔

مُجھے مُسلمان کی تلاش ہے۔

ایسا مُسلمان جو صرف مُسلمان ہو

جس کا کوئی مسلک کوئی فرقہ نہ ہو۔ ۔

اگر آپکو کوئی مُسلمان ملے تو مُجھے مُطلع کییجیے۔

عین نوازش۔ رضوان خالد چوھدری
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں