Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
725

اچھا لکھاری کیسے بنیں – جملہ جہان معنی

ایک بات کی وضاحت پہلے کرتا چلوں کہ میں کوئی روائتی استاد نہیں ہوں اور یہ کوئی روائیتی کورس نہیں ہے۔ یوں سمجھیں ایک دوستانہ گپ شپ ہے، جس میں اگر آپ کو تھوڑی بہت رہنمائی اچھا لکھنے کے حوالے سے مل گئی تو میں سمجھوں گا کہ اس کوشش کا مقصد حاصل ہوگیا۔

لکھنے کی ابتدا ایک جملے سے ہوتی ہے۔ اس لیے آج ہم اچھا جملہ لکھنے کے لیے چند بنیادی باتوں پر بات کیے لیتے ہیں۔ کسی بھی بات کو کہنے کے لیے آپ جن الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں، اور جو انداز اختیار کرتے ہیں وہ ایک جملے کی تشکیل کرتے ہیں۔

ایک اچھا جملہ وہ ہوتا ہے جس میں روانی، آسانی، اور اختصار ہو۔ ٹوٹے پھوٹے، طویل، اور مشکل الفاظ والے جملے تحریر کا تاثر خراب کر دیتے ہیں۔ اس لیے آپ سب سے پہلے اس بات کی کوشش کریں کے اپنے جملے ہمیشہ مختصر اور آسان رکھیں۔ بہت سے دوست سمجھتے ہیں کہ ادق اور مشکل الفاظ لکھنا ہی اصل ادیب کی نشانی ہوتی ہے۔ اور اس وجہ سے وہ شعوری طور پر کوشش کرتے ہیں کہ نئے نئے مشکل الفاظ ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپنی تحریر میں شامل کریں۔ میرا انکو مشورہ ہوگا کہ جب تک کوئی مشکل لفظ خود سے انکی تحریر میں روانی میں نہ آجائے وہ اپنی اس کوشش کو چھوڑ دیں۔

اگر آپ کوشش کرنا ہی چاہتے ہیں تو جملے کو آسان بنانے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیے، آسان مگر پر اثر لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ مگر دنیا کے مقبول ترین تحریروں کو اگر آپ پڑھیں گے تو انکی اکثریت اپنے موضوع کی باقی تحریروں سے مقابلتاً آسان دکھائی دیں گی۔

اپنے لکھنے کی ابتدا مختصر جملوں سے کیجیے۔ بہت سے دوست چاہتے ہونگے کہ وہ اچھا لکھنے کے لیے پہلے ہی دن چار صفحات کا مضمون لکھ ڈالیں۔ اور ممکن ہے آپ میں سے بہت سے دوست فیس بک پر لمبی لمبی تحاریر لکھنے کے عادی بھی ہوں۔ مگر میری پھر بھی آپ سے گزارش ہے کہ اگر آپ اپنی تحریر کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو جملوں کی مشق کیجیے۔ کسی بھی بات کو ایک جملے میں بیان کرنے کی کوشش کیجیے۔ پھر اس جملے کو بہتر بنانے پر توجہ دیجیے۔

چلیے اس کو کچھ مثالوں سے دیکھ لیتے ہیں۔

کل کے دن کچھ یوں ہوا

۔ صبح بادل بنے

۔ دوپہر کو تیز بارش ہوئی

۔ گلیاں پانی سے بھر گئیں۔

۔ سہہ پہر کو مطلع صاف ہو گیا

۔ تیز دھوپ نکل آئی، اور کچھ حبس ہو گیا۔

اس سارے معاملے کو آپ نے ایک جملے میں بیان کرنا ہے۔ تو آپ لکھیں گے کہ

کل صبح بادل بنے، دوپہر تک تیز بارش شروع ہو گئی اور گلیاں پانی سے بھر گئیں ، پھر سہ پہر کو مطلع صاف ہو گیا اور دھوپ نکل آئی جسکی وجہ سے کچھ حبس بھی ہو گیا۔

یہ بالکل ٹھیک ہے اس میں کوئی خامی نہیں۔ مگر یہ ایک خبر ہے۔ اگر آپ صحافی بن کر خبر دینا چاہتے ہیں تو یہیں رک جائیے اس سے آگے جانے کی ضرورت نہیں۔ مگر اگر آپ کو اچھا لکھنے اور اپنے لکھے سے دوسرے پر اثر کرنا ہے تو ابھی محنت کرنا پڑے گی۔

اس جملے کو تھوڑا مختصر کرنے کی کوشش کیجیے۔ خیال رہے کہ جملہ مختصر کرنے سے تفصیل حذف نہ ہو جائے۔

اگلا جملہ آپ کچھ اس طرح بناتے ہیں،

کل صبح کے بنے بادل دوپہر تک خوب برس کر مطلع صاف کر گئے اور دھوپ نکلنے سے گلیوں میں بھرے پانی نے حبس کا سماں بنا ڈالا۔

آپ نے جملہ مختصر کیا، لفظوں کے چناؤ سے بات کو واضح کرتے ہوئے تفصیل کو بیان کیا۔ نئے جملے میں پہلے جملے کی نسبت خبر کے ساتھ ساتھ آپ کی تخلیقی صلاحیت کا اظہار بھی ہے۔

اس جملے کو مزید مختصر کریں، تاثر زائل نہ ہو، تفصیل تقریباً وہی رہے۔

آپ نے لکھا،

کل صبح کے بنے بادل گلیاں بھر گئے تو دھوپ نکل آئی اور بارش کے بعد حبس ہو گیا۔

یا آپ نے لکھا،

کل صبح کے بنے بادل گلیاں بھر گئے تو دھوپ آنگن میں حبس لے آئی۔

اس سے آگے میں آپ کے حسن تخلیق پر چھوڑتا ہوں۔ آپ اس کو مزید مختصر بھی کر سکتے ہیں اور اس میں مزید تفصیل بھی ڈال سکتے ہیں۔ جیسے آخری جملے میں وقت کی بجائے مکان ڈال کر جملے کی ادبیت بڑھائی گئی ہے مگر خبریت کم ہو گئی ہے۔

آپ نے خبر لکھنا ہو، مضمون ، کہانی، یا کتاب۔ شروع آپ نے ایک جملے ہی سے کرنا ہے۔ اس کو اچھا ہونا چاہیے۔ ہر جملہ آپ کا اپنا ہونا چاہیے۔ جب آپ اپنا پہلا جملہ بنالیتے ہیں تو پھر وہی آپ کی تحریر کا انداز طے کرتا ہے۔ آپ کا جملہ ادبی تاثر لیے ہوئے ہوگا تو آپکی تحریر میں ادبی رنگ جھلکے گا۔ آپ کا جملہ خبری انداز میں ہوگا اور آپ کی تحریر بھی خبر کا تاثر ہی دے گی۔

اس مشق کو شروع کریں اور میری رائے میں آپ کو کم از کم پچاس سے سو جملے ایسے بنانا چاہیں جسکے بعد آپ پیراگراف یا اقتباس لکھنے کی طرف آ سکتے ہیں۔ کوئی سی ایک کتاب لے لیں، یا اخبار کا کوئی صفحہ۔ اس کی تین چار سطروں میں سے ایک تاثر نکال کر اس کو ایک جملے میں بیان کرنے کی کوشش کریں۔ جس طرح میں نے اوپر پہلا، دوسرا ، اور تیسرا جملہ لکھا ہے اسی طرح لکھیے اور موازنہ کیجیے کہ آپ میں کتنی بہتری آئی ہے۔

ایک ہی ہلے میں جملے کو مختصر بنانے کی کوشش نہ کیجیے۔ پہلے اس کو تفصیل کے ساتھ ہی لکھیے۔ پھر اس کو مربوط رکھتے ہوئے مختصر کیجیے۔ پھر تیسری یا چوتھی کوشش میں اس کو اتنا مختصر کردیجیے کہ اس سے مختصر کرنا آپ کے ناممکن ہو جائے۔ جب آپ یہ مشق کر چکیں گے اور کچھ وقت گذرنے کے بعد یہ مشق ہمہ وقت آپ کے زہن میں خود بخود چالو رہے گی۔ اور آپ اپنے زہن میں آئے خیالات کو مربوط اور مختصر کرتے جائیں گے اور جملے کی مختصر اور آسان شکل ہی کو کاغذ یا اسکرین پر لکھیں گے۔ مگر اگر ایسا نہ بھی ہو تو اپنی تحریر کا دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے آپ یہی کام کرسکتے ہیں اور ہر ایسی تفصیل جو دو تین کی بجائے ایک جملے میں بیان کی جاسکتی ہو وہ آپ کی نظروں میں باآسانی آ جائگی۔

مجھے امید ہے آپ کا اگلا ہفتہ اس مشق کے ساتھ گذرے گا اور آپ اگلے مضمون کے شائع ہونے تک کافی جملے بنا چکے ہونگے۔ اگلی مرتبہ بشرط زندگی و استواری ہم ایک پیرا گراف لکھنے کی کوشش کریں گے اور دیکھیں گے کہ ایک پیرا گراف میں کسی کہانی یا مضمون کا کتنا حصہ سما سکتا ہے؟

میرے پچھلے مضمون پر ایک دوست عمران احمد راجپوت صاحب نے ایک سوال کیا تھا کہ کالم اور بلاگ میں کیا فرق ہے؟

مختصر جواب حاضر ہے،

کالم کسی زمانے میں اخبار میں چھپنے والے مضامین کو کہا جاتا تھا اور بلاگ ویب سائیٹس پر چھپنے والی تحاریر کو۔ البتہ کالم کو زیادہ سنجیدہ ، رسمی اور باقاعدہ تحریر کا درجہ دیا جاتا تھا جبکہ بلاگ کو ایک غیر رسمی بات چیت یا اپنی روزانہ کی ڈائری نما تحریر سمجھا جاتا تھا۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرق ختم ہوتا گیا، اور جب اخبارات بھی آن لائن آنے لگے تو یہ فرق بھی ختم ہوتا گیا کہ کالم صرف پرنٹ میڈیا میں ہی چھپتا ہے۔ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کئی آن لائن ویب میگزین اور اخبارات باقاعدگی سے کالم بھی چھاپ رہے ہیں۔

اب اگر کالم اور بلاگ میں فرق تلاش کیا جائے تو وہ صرف رسمی اور غیر رسمی تحریر کا ہی رہ جائے گا، یا پھر یہ کہ کالم رسمی بھی ہوتا ہے اور باقاعدگی سے شائع بھی ہوتا ہے، جبکہ بلاگ غیر رسمی ہونے کے ساتھ ساتھ دن میں دو بار بھی شائع ہو سکتا ہے اور دس دن کا وقفہ بھی ڈالا جا سکتا ہے۔

رسمی کی تھوڑی وضاحت کر دوں، یہ تحریر کی رسمی ساخت کے لیے کہہ رہا ہوں۔ ایک کالم کے اندر عام طور پر ایک مروجہ ترتیب کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور شروع میں موضوع کا تعارف، پھر اس سے متعلق حقائق، اسکے بعد ان حقائق کا تجزیہ اور آخر میں مختصراً حاصل کلام بیان کیا جاتا ہے۔ جبکہ بلاگ میں ایسی کوئی رسمی ترتیب کی ضرورت نہیں ہوتی، لکھنے والا کسی بھی انداز کو اپنا سکتا ہے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں