312

ڈاکٹر ذاکر نائک۔

جس طرح سقراط نے زہر پی لیا تھا
جس طرح خلیل نارِ نمرود میں کود گیا تھا
 
جس طرح یوسف نے اٹھارہ سال جیل میں قید کاٹی
جس طرح عیسٰی سولی چڑھ گیا تھا 
جس طرح جادوگروں نے فرعون کے سامنے اسلام قبول کیا 
جس طرح حسین نے بھوکے پیاسے بہتر لاشے پیش کیے
جس طرح عمر خیام کا گھر جلا دیا گیا
جس طرح ارشمیدس بازاروں میں ننگا بھاگ گیا تھا
جس طرح احمد بن حنبل بادشاہوں کے سامنے ڈٹ گیا تھا 
جس طرح ابراہیم بن ادھم دنیا چھوڑ گیا تھا 
جس طرح گلیلیو چرچ کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا
جس طرح شمس تبریز کی کھال کھینچ دی گئی 
جس طرح سرمد کی گردن اتار دی گئی

آج اسی طرح ایک مرد مجاہد ہندوستان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا ہے، بنگلہ دیش اور انڈین انٹیلی جنس ایجنسیاں ملکر بھی اس ایک شخص کا مقابلہ نہیں کر سکے. آج را اپنا پورا زور لگانے کے بعد بھی ناکام و نامراد رہی ہے، آج وہ اکیلا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر غالب آ گیا ہے. ڈیڑھ ارب آبادی کے ملک نے آج ایک نہتے شخص کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں، اور جب وہ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے تو شہریت منسوخ کر دی. یہ شکست قبول کرنے کے مترادف ہے، آج دنیا کے دو سو بیس ممالک انڈیا کی اس اوچھی حرکت پر قہقہے لگا رہے ہیں اور ڈاکٹر زاکر نائیک فاتح قرار پایا ہے. گلیلیو نے بھی جب اعلان کیا “زمین گول ہے” تو دنیا بھر کے عیسائی، چرچ اور پادری اس کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے. وہ گلیلیو کے خلاف جلسے جلوس نکالتے، اسے برا بھلا کہتے، گالیاں دیتے، اس کے گھر والوں دوستوں عزیزوں رشتے داروں کو بھی دھمکیاں دی جاتیں، گلیلیو کا سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا، اسے عدالت میں پیش کیا گیا کیونکہ وہ بائبل کے خلاف نظریہ پیش کرتا تھا، گلیلیو کو اپنے عقائد و نظریات سے توبہ کرنے پر مجبور کیا گیا لیکن وہ کہاں ماننے والا تھا. گلیلیو نے سورج نگل لیا تھا، اس کا اندر باہر روشن ہو چکا تھا، ایسا روشن آدمی واپس اندھیرے کی طرف کیسے جا سکتا ہے. یوں پوری پاپائیت ملکر بھی گلیلیو سے یہ قبول نہیں کروا سکی کہ زمین چپٹی ہے. پھر چرخ کہن نے دیکھا کہ بائبل بغل میں دبانے والے پادری اپنی جوتیاں بغل میں دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے. علم دلیل اور منطق کی جیت ہوئی.

آج گلیلیو کے آخری الفاظ میرے دماغ میں گونج رہے ہیں جو اس نے اپنے شاگرد آندریا سے کہے. جب چرچ کے اعلان پر اس کا بائیکاٹ کیا گیا اور وہ تن تنہا رہ گیا تو آندریا نے حسرت، یاس، مایوسی اور بے بسی کے ملے جلے جذبات سے کہا ”افسوس، صد افسوس، کتنی بدقسمت ہے وہ قوم جو کسی ہیرو کو جنم نہیں دیتی۔“
”نہیں آندریا، بدقسمت ہے وہ قوم جسے ہیرو کی ’ضرورت‘ ہے۔“ گلیلیو نے جواب دیا.

تین کروڑ تینتیس لاکھ خداؤں کے پجاریوں کو اللہ تعالٰی نے ڈاکٹر زاکر نائیک کی صورت میں ایک ہیرو دیا، جس کے دلائل کے سامنے بڑے بڑے ہندو پنڈت بے بس تھے، بڑے بڑے جغادری اس کی ذہانت دیکھ کر دانتوں میں انگلیاں دابتے تھے، اس نے علمی میدان میں ہر مبلغ کو پیچھے چھوڑ دیا، اس نے پرنٹ میڈیا، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کا ایسا استعمال کیا جیسا کسی کے بس کی بات نہیں تھی، آج انڈیا بھی اپنے ہیرو کو اپنے ہاتھوں سے مارنا چاہتا ہے. ہندو، سکھ اور عیسائی تو چلو غیر تھے لیکن خود کو اہلسنت و الجماعت کہنے والے دیوبندیوں، بریلویوں، اہلحدیثوں اور شیعوں کی طرف سے بھی شرمناک رویہ اختیار کیا گیا، دو ٹکے کے مولوی جنہیں سرچ اور ریسرچ کا فرق بھی نہیں پتا وہ بھی اپنے دو نمبر جعلی بازاری فتوے لے کر زاکر نائیک کے خلاف میدان میں نکل آئے. کلہاڑی کے لوہے میں بھی اگر لکڑی کا دستہ نہ ہوتا تو درخت نہیں کٹ سکتا تھا. ان فتوؤں نے جلتی پر تیل کا کام کیا. ہندوؤں نے انہی فتاوی اور آڈیو ویڈیو کلپس کے زریعے زاکر نائیک کے خلاف کمپئین چلائی اور اس کی شہریت منسوخ کروا لی. مجھے افسوس ہے کہ شہریت دینے کی پیشکش پاکستان کی طرف سے کیوں نہیں کی گئی.


دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف 
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

لیکن اللہ کا یہ چراغ پھونکوں سے بجھایا نہ جائے گا، اسلام کی یہ خوبی ہے کہ اسے جتنے زور سے دبایا جاتا ہے یہ اتنی ہی طاقت اور شدت کے ساتھ واپس پلٹ کر آتا ہے. شہریت منسوخ کر کے بغلیں بجانے والے حضرات خاطر جمع رکھیں، قرآن اور صحیح حدیث کی یہ دعوت پوری طاقت سے واپس آئے گی، فرقہ واریت کا عفریت جس نے اس امت کو جکڑ رکھا ہے ایک دن پسپا ہو گا، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ کے جھگڑے ختم ہوں گے اور قرآن و حدیث کا منہج فتحیاب ہو گا.

ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں