338

حاکم دوبئی، شیخ محمد بن راشد المکتوم ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔

دوبئی میں پاکستان ایسوسی ایشن دوبئی کے زیر اہتمام ہونے والی ایک تقریب، جشن عباس تابش میں جہاں دیگر شعراء نے اپنا شائرانہ کلام پیش کیا وہیں دوبئی کے نائب صدر اور وزیراعظم حاکم دوبئی کی شاعری پر بھی بہت خوبصورتی سے بات کی گئی۔ دوبئی میں مقیم، پاکستانی ادیب اور مشہور کالم نگار، محترمہ نبراس سہیل نے حاکم دوبئی کی دلکش شاعری پر خوبصورتی سے روشنی ڈالی۔ اس تقریب کی ویڈیو اور تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔

نوائے صحرا !
صحرائے عرب سے اٹھنے والی ایک شاعر کی صدا !
یہ نوائے صبحِ جمال ہے
جذب و جنوں کی ہے بازگشت
یہ قصہءِ ہجروصال ہے
نہ محض ہے رنج کی داستاں
نہ ہی صرف ذکرِ جمال ہے
دی روز ہے کہیں نغمہ زن
نغمہ سرا کہیں حال ہے
یہ وہ زمزمہ ء دشت ہے
جو نشانِ اوج و کمال ہے
کہ خود آپ اپنی مثال ہے
یہ نوائے صبحِ جمال ہے

میں بات کر رہی ہوں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیرِ اعظم ، حاکم دبئی ۔۔۔جنابِ عزت مآب شیخ محمد بن راشد المکتوم کی سخنوری کی۔۔۔
یہ قطعی نا ممکن نہیں ۔۔کہ ایک حاکمِ وقت عادل بھی ہو، ترقی و جدت پسند بھی ہو اور شاعر بھی ہو ۔۔۔البتہ یہ کٹھن ہے کہ ایک حاکم وقت خود اپنے کمالات کے اظہار میں اعتدال رکھنا بھی جانتا ہو۔

صاحب الّسمُو شیخ محمد بن راشد المکتوم کی شاعری میں اپنے آباء سے عقیدت ، خلفاء کے قصے ، شاہوں کے نظریات اور انکی عملی بہادری کا بیان ملتا ہے مگر خاص بات یہ ہے کہ ان ا علیٰ مضامین کے باوجود، آپکی نظمیں اپنے نبطی اسلوب کی وجہ سے نہایت عام فہم ہیں۔

موضوع کے انتخاب سے لے کر لفظ اور استعارات کے استعمال تک آپکی شاعری میں ایسا ہی اعتدال ہر جگہ نظر آتا ہے۔ آپکو ہز ہائینس شیخ محمد بن راشد المکتوم کی شاعری میں والہانہ پن تو ملے گا، جنوں نہیں۔۔۔ حاکم کا تفاخر تو نظر آئے گا، تسلط نہیں۔روایات سے محبت ملے گی، قدامت پسندی ، نہیں۔۔۔

ہز ہائینس شیخ محمد بن راشد المکتوم کے عمومی استعارے صحرا، چاند، ستارے،باز، شیر اور غزال ہیں جو اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ انکی شاعری میں باربار ابھرتے ہیں اور اپنی خصو صیات سے قاری کو مانوس کرتے جاتے ہیں۔
ٓ
آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے بہت سے ضرب المثال اور محاورے بھی اختراع کئے۔ جن میں سے ایک کاترجمہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے۔۔عشق میں کوئی شاہ نہیں !
اسی طرح اپنی ایک نظم بترجمہ ۔۔شیر کی نظر۔۔ کی ابتدا ان الفاظ سے کرتے ہیں۔۔۔ہرن کی آنکھ شیر کی دلیری دیکھتی ہے جبکہ شیر کی آنکھ ہرن کی ناتوانی ہی دیکھ پاتی ہے۔۔

ایک اور انوکھا اسلوب جو آپ نے اپنایا وہ نظم میں پہیلی کہنے کا ہے۔ آپکی لکھی منظوم پہیلیوں کا جواب ، دنیا بھر کے فطین ذہنوں کے لئے ایک نہایت دلچسپ ادبی مشغلہ ہے۔

ابتدا میں اپنی شاعری کے لئے غیر مرعوب ا ور غیر متعصبانہ رائے جاننے کی غرض سے ، فرضی نام سے شاعری کرنے والا نوجوان شعر نبطی کہتے کہتے ، اور نامور شعراء کی پذیرائی حاصل کر تے کرتے ، آپ ہی اپنی شناخت بن گیا۔

ہز ہائینس شیخ محمد بن راشد المکتوم کے مزاج کی جدت پسندی نے شعر و سخن میں بھی نئی اختراعات کے در وا کئے۔ اپنی ایک نظم کا آغاز ٹیلی فون پر محبوب کی آواز کو سننے سے کرتے ہیں جبکہ ستاروں اور خلا کا سائنسی نظام بھی آپکی کئی نظموں کا موضوع ہے ۔ آپ اپنی قوم کو آنے وا لے سائنسی اور تکنیکی دور کا آےئنہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ۴۰ویں قومی دن کے موقع پرآپکی شاعری سے متاثر ہو کر بنائی جانے والی پینٹنگز کو بھی اماراتی فنکاروں کی ایک اختراع کا درجہ دیتے ہوئے بے حد سراہتے ہیں جو آج آپ کی کتاب 40 Poems from the Desert کا حصہ بن چکی ہیں۔

صاحب الّسمُو شیخ محمد بن راشد المکتوم کی شاعری میں ضعیفی کو پہنچتے بزرگوں کا ذکر بطورِ خاص بڑی ہی درد مندی سے ملتا ہے۔ آپ کی نظم بترجمہ ..بزرگ.. میں ایک ضعیف، ناتواں، اور روزی کی تگ و دو کرتے شخص کا ذکر ملتا ہے۔ آپ اِن بوڑھے کپکپاتے ہاتھوں کی لکیروں میں وہ جستجو پڑھتے ہیں جو نئے زمانے کے ساتھ چلنے کی تحریک دیتی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ اپنے قاری کو اس دنیا کی مختصر اور آخرت کی دائمی زندگی کی طرف راغب کرتے ہیں۔
اپنی ایک اور نظم جس کا ترجمہ ہم ..ماں کا دکھ.. کے طور کر سکتے ہیں۔۔ آپ ایک ایسی ماں کی حا لتِ ز ار بیان کرتے ہیں جس نے اپنے بیٹے کی پرورش اسکے باپ کے بعد بڑے ہی نا ز و نعم سے کی ۔۔مگر بڑھاپے میں بیٹے نے ماں کو گھر سے بے دخل کر دیا۔ آپ ایک حکمران ہونے کی حیثیت سے حکم دیتے ہیں کہ بیٹے کو حاضر کیا جائے کہ اس کی سرزنش کی جا سکے۔ مگر وہ ماں آپ کو روک دیتی ہے کہ حاکمِ وقت کے آگے اپنے بیٹے کی یہ تذلیل وہ سہہ نہ پائے گی ۔ ماں کی یہ بے لوث محبت آپ پر رقت طاری کرتی ہے اور ہم سلطانِ وقت کا دل زندگی کی سفاک حقیقتوں پر ہمکتا دیکھتے ہیں۔ ۔۔

آپکے شعر و سخن میں انسانی طبع کی تمام تر رعنائیاں ملتی ہیں۔ آپ محبوب کے حسن کا قصیدہ کہتے ہیں۔ محبوب کے لئے آپکے استعارے جنت کی حور اور صحرائی غزال عشق کی ماورائی تخیئل پیدا کرتے ہیں۔اور یوں آپکی شاعری جسمانی لذتوں سے مبرا اور منزہ نظر آتی ہے۔
محبوب کی بے رخی کا تذکرہ بھی آپ کے ہاں بڑی خوبی سے ملتا ہے۔۔اس ضمن میں آپکی نظم بترجمہ، عرقِ گلاب ۔۔۔قابلِ ذکر ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ عرقِ گلاب کی مانند محبوب کے وعدے میری ہتھیلی پہ دھرے ہیں۔۔۔ خوشبو دار مگر بے ثبات ۔۔۔۔ یہ بھلا کب تلک جی پائیں گے؟
صاحب السمو شیخ محمد بن راشد المکتوم کی شاعری میں ایک کامیاب حکمران کا تفاخر اور ٹھہراؤ بڑا واضح نظر آتا ہے ۔ اپنی نظم بترجمہ، خوشحال قوم، آپ اپنی قوم کے ہر فرد کو یہ نوید دیتے ہیں کہ ہمارا ہر شہری خوف سے آزاد ، امن کی پناہ میں ہے۔ہم کٹھن ماضی گزار چکے ، اب ترقی اور خوشحالی کا دور ہے ۔

ہز ہائینس شیخ محمد بن راشد المکتوم اپنی شاعری کے حوالے سے کہتے ہیں۔” میری نظمیں میرے ذاتی تجربے کا حاصل ہیں۔ میں نے کبھی وہ بات قلمبند نہیں کی جو میری زندگی میں وارد نہ ہو ئی ہو۔ “
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’}
span.s2 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں