215

یہ ’’مزے‘‘ لینے والے توتورینے۔

ابھی دو تین دن پہلے خبر آئی تھی کہ سسلین مافیا کا خطرنک ترین گاڈ فادر جسے ’’باس آف دی باسز‘‘کہا جاتا تھا، جیل میں چل بسا۔ اس کا تکیہ کلام بھی یہی تھا کہ وہ موت اور جیل سے نہیں ڈرتا۔ تقریباً دو ڈھائی سال پہلے میں روم میں تھا جہاں پاکستانیوں نے اس کے بارے میں مجھے بے شمار کہانیاں سنائیں جو سچ ہونے کے باوجود ناقابل یقین محسوس ہوتی تھیں ۔ میں حیران ہو کر سوچتا رہا کہ 21ویں صدی میں ایک یورپی ملک کے اندر ایک آدمی اتنے خاندان کیسے بربادکرسکتا ہے۔

سوچا پاکستانی بھائی ذرا مبالغہ کر رہے ہیں اور ’’توتورینا‘‘ کےکارنامے بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں لیکن اب جو تفصیلات پڑھنے کو ملیں تو اندازہ ہوا کہ اٹلی میں مقیم پاکستانی سچ ہی کہہ رہے تھے۔ ’’توتورینا‘‘ کااصل فن یہ تھا کہ وہ گھنائونے ترین جرائم کے بھی ثبوت نہیں چھوڑتا تھا اور شاید یہی اس ’’فن‘‘ کی معراج بھی ہے۔یہ بات تو خیر یونہی برسبیل تذکرہ آگئی حالانکہ کالم کا آغاز مجھےہم وطنوں کو مبارکباد سے کرنا چاہئے تھا کہ ان کے اندر بھی ایک عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں اچانک ایک انقلابی اور نظریاتی ’’لیڈر‘‘ پیدا ہوگیا ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ اس کا نظریہ ابھی تک نامعلوم ہے۔ 
لوگ مختلف قسم کی قیاس آرائیوں میں مشغول ہیں۔ کچھ کا خیال ہے یہ’’نظریہ ٔ جنرل جیلانی‘‘ہے۔ کچھ کہتے ہیں یہ ’’نظریہ جنرل ضیاء‘‘ ، کچھ کااندازہ ہے یہ ’’نظریہ ٔ چھانگا مانگا‘‘ ہے۔ کچھ اس کا تعلق ’’نظریہ ٔ ایس آر او‘‘ یا ’’نظریہ ٔ پیلی ٹیکسی‘‘‘ سے جوڑ رہے ہیںاورکچھ کی تحقیق کے مطابق یہ ’’نظریہ ٔ پاناما‘‘ اور ’’نظریہ ٔ پارک لین‘‘ ہے غرضیکہ جتنے منحوس منہ اتنی ہی باتیں لیکن ‘‘منہ کھائے تو آنکھ اور زبان شرمائے‘‘ قسم کے لوگ چپ ہیں کہ بکتربند بے غیرتی کا بھی زندگی میں ایک اور ہی مقام ہے۔گوالمنڈی کا یہ چے گویرا اور برانڈرتھ روڈ کا یہ مائوزے تنگ کہتا ہے کہ 5 جج کروڑوں عوام کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ 
دوسرے لفظوں میں اپنے منہ میاں….. مٹھو اس بات کا اعلان کرتا پھر رہا ہے کہ وہ خود بلکہ بقلم خود کروڑوں عوام کی چلتی پھرتی ’’قسمت‘‘ ہے۔’’یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا‘‘فرد واحد جن بدنصیبوں کی کرپٹ قسمت ہوجائے، سمجھو ان کی بیڑیوں میں وٹے پڑ گئے اور ہتھیلیوں سے بدبختی کی لکیر کے علاوہ باقی سب لکیریں گئیں، تقریر لکھنے والے جہل مطلق کو شاید خبر نہیں کہ عہد حاضر میں ’’نظریہ‘‘ اور ’’نظریاتی لیڈر‘‘ کیوں ختم ہوئے اور آج کا پولیٹیکل سائنٹسٹ ان دونوں اصطلاحات کے بار ےمیں کیا رائے رکھتا ہے لیکن خیر کہ کل تک دہشت گردوں کو گلیمرائز کرنے والا منشی میرا موضوع کیسے بن سکتا ہے۔ 
تو بات ہو رہی تھی گوالمنڈی کے چے گویرا کی جو جنرل ضیاء الحق کے پہرے میں مشرف کو کٹہرے میں لانے کی خواہش کا اظہار کرتے وقت کتنی آسانی و روانی سے بھول جاتا ہے کہ مشرف آپ کی حکومت میں رخصت ہوا تو اس وقت جیل اور موت سے بے خوفی ہریسہ کھا رہی تھی یا پائے کھا رہی تھی؟واہ….. خود فریبی کی انتہا کہ ہارنے والا کہتا ہے میں ہارنے والا نہیں اور کل تک دوسروں کو سڑکیں ناپنے کا طعنہ دینے والا آج خود سڑکیں ناپنے کا شیڈول دے رہا ہے۔ خودساختہ قائداعظم ثانی نے نظرثانی کی اپیل ان مظلوم عوام کی عدالت میںدائر کر دی ہے جنہیں ان حضرت اور ان کے ہم نفسوں نے خط ِ غربت سے کرپشن کی زنجیروںکے ساتھ باندھ رکھا ہے۔
یہ جو’’تربت‘‘ کی تاریک راہوں میں مارے گئے، جن کے بارے جناب چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر 3روز میں رپورٹ طلب کی ہے اور بزنجو کا کہنا ہے 20افراد اب بھی انسانی اسمگلرز کے پاس ہیں۔ ایک ثقہ رپورٹ بتاتی ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ پاکستان میں صنعت کا درجہ پاچکی ہے۔ ایک تہائی غریب اور بے روزگار لوگ جان پر کھیل کے روشن مستقبل کے لئےیورپ وغیرہ جانا چاہتے ہیں تو اس ’’ایک تہائی‘‘ کی اس حالت پر ’’دوتہائی‘‘اکثریت والوں کو ڈوب مرنا چاہئے لیکن یہ ایک طرف سے ڈوب کر دوسری طرف سے صحیح سلامت نکلنا چاہتے ہیں۔ ادھر ترکی سے ملک بدر کئے گئے 50’’غیور باشعور‘‘ سیالکوٹ ایئرپورٹ پر دھر لئے گئے۔ 
سعودیہ اور یونان سے ری ایکسپورٹ کئے گئے شاہین علیحدہ۔ یہ سب لوگ کون ہیں؟ انہیں اس انجام کو کس نے پہنچایا؟یہ سب سرے محلوںاور پانامائوں کی پیداوار ہیں۔ انہیں ’’پاناماں‘‘ جنم دیتی ہے جو سرے کی سولیوں پر جھول جاتے ہیں۔ چند روزپہلے اسفندر یار ولی کا یہ اعترافی بیان آپ کی نظر سے بھی گزرا ہوگاکہ’’عمران خان نے سیاست کرنے کا مزہ کرکرا کردیا‘‘واقعی یہ ’’مزے‘‘ لینے ہی آتے ہیں۔باقی بے موت مرنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ایک تازہ تحقیق کے مطابق روزانہ 5مشروم کھانے والے کینسر سے بچ سکتے ہیں۔ پاکستانی کیاکھائیں کہ اس نام نہاد جمہوریت کےکینسر سے بچ سکیں جو نہ موت سے ڈرے نہ جیل سے، صرف مزے کرتے ہیں۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں