211

پاکستانی مدر ٹریسا بھی چل بسیں۔

9 ستمبر1929 کو جرمنی میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر رتھ کتھرینامارتھا فاؤ 10اگست2017 کو کراچی کے ایک ہسپتال میں چل بسیں. 1950 کی دہائی میں میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایک عیسائی تنظیم ”ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری “سے وابستہ ہوگئیں، اور ایک مشنری کے طور پر کام کرنے لگیں۔

1962 میں وہ مستقل طور پر پاکستان آگئیں اورکراچی میں اپنا ادارہ ”میری ایڈیلیٹ لپروسی سنٹر“قائم کیا جہاں جذام کے مریضوں کا مفت علاج کیا جانے لگا انہوں نے کوڑھ (جذام) کے مریضوں کیلئے اپنی زندگی وقف کردی انکی جدوجہد کی بدولت 1996 میں پاکستان کو عالمی ادارہ نے” کوڑھ فری“ ملک قرار دیا۔

عجب لڑکی تھی کہ بے مثال حُسن رکھنے کے باوجود عاجزی اختیار کرکے ان مریضوں کو اپنانے لگی جب غیر تو غیر اپنےبھی ان کو ٹھکرانے لگے اس جذبہ خدمت کی بنا پر انہیں ”پاکستانی مدرٹریسا“ کا خطاب دیا گیا،اسکے علاوہ نشان قائداعظم اور ہلال پاکستان ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اپنی خوبصورت جوانی سے لیکے خوبصورت بڑھاپے تک پاکستان انکا عشق ٹھہرا۔

کم وبیش 65 برس گذار کر اسی پاک سرزمین میں خاک بسر ہوگئیں انکی خدمتِ انسانیت کے حوالے سے لازوال جدوجہد پر خراج محبت پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی۔

آج جب انکی وفات کی خبر سنی تو ایک حسرت سی دل میں ابھری.. ہائے کاش! انسانیت کی یہ عظیم خدمتگار اسلام کی دولت سے بھی مالامال ہوجاتی تو جنت میں چلتی پھرتی کتنی اچھی لگتی مگر یہ سعادت تو قسمت والوں کو ملا کرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں