Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
213

ریاست یا مافیا ؟

میری ایک تحریر میں بدکردار ریاست کے الفاظ بڑے صاحب کی طبیعت پر گراں گُزرے۔ فرمایا تُم اُس بکری کی مانند ہو جو دودھ بھی مینگنیں ڈال کر دیتی ہے۔

پرسوں اپنے مُرشد کی وفات کی خبر سُن کر مُجھے لگا کہ میری ڈھال تو باقی نہیں رہی اب کبھی بے باکی سے حق بات نہیں کر سکُوں گا لیکن آپکی غُصیلی کال کے بعد اندازہ ہوا کہ اُستاد کا ستارہٴ شجاعت مُجھے پُورا سچ لکھنے سے روک لیتا تھا اب کون روکے گا.

فُون پر میری زُبان لڑکھڑاتی ہے اب میرے قلم کی زُبانی جواب لیجے.

بڑے صاحب! جب محنت نہ کرنے والے سٹُوڈنٹ کو نکمے اور ٹھیک سے نہ کاٹنے والی چھُری کو کُند یا کھُنڈی کہا جاتا ہے تو اس سے ایک واضع اُصول ملتا ہے کہ انسان سمیت ہر جاندار اور بے جان چیز کی کُچھ فطری ذمّہ داریاں ہیں جو اُسکا کردار مُتعیّن کرتی ہیں۔

اپنی فطری ذمّہ داری ٹھیک سے پُورا نہ کرنے والی ہر چیز اپنی اہمیّت کھو دے گی اور اگر وہ اپنے فطری فرائض اور ذمّہ داریوں سے مُتضاد کردار اپنا لے تو ایسی ہر چیز بدکردار کہلائے گی۔ ایسے مرد کو بدکردار اور ایسی عورت کو طوائف کہا جاتا ہے اب یہ فیصلہ آپ کر لیجیے کہ ریاست مُذکّر ہے یا مُوئنّث۔

بڑے صاحب! آپکی جانب سے کی گئی ریاست کی تعریف تو آپکے ترانوں اور مِلّی نغموں سے واضع ہے۔آپکے تشکیل دیے گئے تمام ترانوں اور مِلّی نغموں کا محور اور مرکز سر زمین، وادیاں، پہاڑ، مٹی، کھیت اور باغات ہیں۔ اگر کسی انسان کا ذکر کسی مِلّی نغمے میں آبھی جائے تو وہ ایسا انسان ہو گا جو کسی ہٹّی یا دوکان پر نہیں ملتا بلکہ کاکُول کی بھٹّی میں تیار ہوکر ملّی نغموں میں بتائی گئی پاکیزہ سرزمین کی حفاظت میں جان دیتا ہے۔

اب حال ہی میں آپکے ملّی نغموں نے ریاست کی تعریف میں دُشمن اور اُنکے بچّے بھی شامل کر لیے ہیں۔

افسوس کہ میں اور میرے بچّے نہ تو دُشمن کی تعریف پر پُورے اُترتے ہیں نہ ہم کوئی بے جان وادی ، کوہسار یا گلیشیر ہیں تبھی نہ ہماری عزّتِ نفس اور آزادی کی حفاظت آپکے ترانوں میں شامل ہے نہ میرے بچوں کی تعلیم آپکی ذمّہ داری ہے۔ کاش آپ مُجھے دُشمن قرار دے کر ہی میرے بچوں کو پڑھانے کی ذمّہ داری لے لیں کم از کم میرا بچہ ملّی نغمے میں شامل ہو کر ریاست کی ڈومین میں شامل تو ہو جائے گا۔

بڑے صاحب! اگر زمین پہاڑ اور چشمے ہی ریاست ہوتے تو مکّے مدینے اور زم زم کے چشمے سے مقدّس میری ریاست میں نہ کوئی زمین ہے نہ چشمہ۔

بڑے صاحب! ریاست ایک ایسے جُغرافیائی بندوبست کو کہتے ہیں جس میں ایک نظریے کے حامل کروڑوں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے ادارے اورنظام موجُود ہوں جو تمام افراد کے لیے نہ صرف صحت مند زندگی کے لیے ضروری بُنیادی ضروریات کی آسان فراہمی مُمکن بنائے بلکہ آسان انصاف، جانی و مالی تحفظ، تعلیم و تربیّت سمیت افراد کی عزّتِ نفس کی حفاظت بھی ریاست کے کردار کے بُنیادی خدوخال ہیں۔ اگر ریاست یہ سب نظرانداز کر کے عوام پرحُکمران بن جائے تو ایسی ہی ریاست بدکردار ہوتی ہے۔

اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ میری ریاست بدکردار ہے۔ وجہ بھی واضع ہے کہ اسے اسکی پیدائش کے کُچھ عرصہ بعد ہی یرغمال بنا کر اسکے اعضاء کی نشوونُما پر ویسے ہی روک لگا دی گئی جیسے بھکاری مافیا کے کارندے نوزائیدہ لاواث بچوں کے سر پر چند سال کے لیے پیتل کا کڑا کس دیتے ہیں۔

بچے کے سر کے گِرد کسا ہُوا کڑا ابتدائی طور پر سر کا سائز بڑھنے سے روک لیتا ہے جس سے نہ صرف دماغ کی نشوونُما رُک جاتی ہے بلکہ مجموعی طورپر بچہ ایک عجیبُ الخلقت شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر اُسے چوراہوں بازاروں اور مزاروں وغیرہ میں بٹھا کر بھیک منگوائی جاتی ہے۔ اس بچے کی شکل میں بھکاری مافیا کے ذرائع آمدن کے نظام میں ایک اور مُستقل کل پُرزے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

پاکستان کے ماتھے پربھی اُسکے بچپن میں جنرل سکندر مرزا ، جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان نے ریاستی آرمی کی طاقت کے بل بوتے پر یہی کڑا کس دیا تھا۔

بعد میں آنے والے ہر جرنیل نے اِس شکنجے کو ریاست کے ماتھے پر مزید کسا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بلوچوں اور دیگر پاکستانیوں کے قتل اور گُمشدگیوں کا سلسلہ آج بھی پُوری آب وتاب سے جاری ہے۔

ریاست کی تعریف کرنے والے اور خود کو ریاست کے مالک سمجھنے والے جرنیلوں کی مافیا آج بھی میری ریاست پر قابض ہے۔ مُجھ پر پہلے گورے حُکمران تھے.

میری ہندوستان کہلانے والی ریاست بھی بدکردار تھی میں تب بھی قیدی تھا.

میری پاکستان کہلانے والی ریاست بھی بدکردار ہے میں آج بھی جرنیلوں کی مافیا کا قیدی ہُوں۔

میری ریاست کے اعضاء یعنی اداروں اور نظاموں کی پرورش میرے ماتھے پر مافیا کے کسے گئے شکنجے نے میرے بچپن میں ہی روک لی تھی۔

اب ریاست کی رعایا دولے شاہ کے چوہوں پر مُشتمل ہے جو بھیک اکٹھی کر کے مافیا کا پیٹ بھرتی ہے۔

مافیا کے سربراہان اکیلے پُوری قوم کے ماتھے پر شکنجہ نہیں کس سکتے تھے تبھی اختیارات تین درجوں میں بانٹ کر کارندے بھرتی کیے جاتے ہیں۔

میری ریاست میں بھی مافیا کی انتظامیہ کی تین درجوں میں بٹی ہوئی ہے یعنی ٹاپ لیول، مڈل لیول اور اینٹری لیول مینیجمنٹ.

دوسرے اور تیسرے درجے کی انتظامیہ کو لُوٹ کھسُوٹ کی اجازت اس شرط پر دی جاتی ہے کہ وہ مافیا کے مجمُوعی نظام کی حفاظت اپنی ہی بقا سمجھ کر کرے. کُچھ پانے کے لیے کُچھ کھونا ہی پڑتا ہے.

ٹاپ لیول میں تو آج تک جرنیلوں کے علاوہ کوئی خوش قسمت جگہ نہیں پا سکا البتّہ مڈل لیول مینیجمنٹ میں جاگیرداروں، سرمایہ داروں، عُلماء ، ججز اور نوکرشاہی کو وقتاََ فوقتاََ حسبِ ضرورت شامل کیا جاتا ہے۔

مافیا کی اینٹری لیول مینیجمنٹ کو براہِ راست اور مُستقل بُنیادوں پرمڈل لیول مینیجمنٹ کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ تاکہ اگر کبھی عوامی غیض وغضب قابُو سے باہر ہو بھی جائے تو مڈل لیول مینیجمنٹ مافیا کے مالکان کی ڈھال بن جائے۔

ریاستی مافیا کی اینٹری لیول مینیجمنٹ میں ایجنسیاں ، تھانے پٹوار اور کچہریاں شامل ہیں جو مافیا کے نظام پر آہ وبکا کرنے والوں کو نشانۂ عبرت بنا دیتی ہیں۔

بڑے صاحب! مُجھے اور میرے جیسے کُچھ دیگر کو ایک اور بنگلہ دیش نہیں دیکھنا اور کُچھ عرصہ مزید آپ کو چھوٹ دی گئ تو میری قوم ایک اور اکہتّر دیکھے گی. اب آپکو نہ صرف جانا ہو گا بلکہ میرے سر پر پہنایا ہوا شکنجہ بھی اُتارکر اپنے ساتھ لے جائیے.

مُجھے آپکے ساتھ ساتھ آپکی مافیا کے دُوسرے اور تیسرےلیول کی مینیجمنٹ سے بھی آزادی چاہیے.

آپ ہٹ جائیے آپکی باقیات اور آلائیشیں میں خُود ہٹا دوں گا

ہم ایک نیا سوشل کنٹریکٹ چاہتے ہیں۔

ہم ریاست کی دُوبارہ تعریف کریں گے جس کا محور اور مرکز سر زمین، وادیاں، پہاڑ، مٹی، کھیت اور باغات نہیں عام آدمی ہوگا۔

جسکی ٹاپ مڈل اور اینٹری لیول مینیجمنٹ میری سول یُونیورسٹیوں کے اُستاد اور سٹُوڈنٹ ہونگے۔

یہی لوگ میرے بچوں کو قومی مفاد بتائیں گے یہی اینٹیریر اور فارن پالیسی بنائیں گے۔

ہم نئے ملّی نغمے اور ترانے بنائیں گے جو پنجابی کو بلوچ اور دیگر سب قوموں کو ایک دوسرے سے مُحبت سکھائیں گے۔

نئے سوشل کنٹریکٹ میں ریاست کا محور عام آدمی، صحت، تعلیم اور عزّتِ نفس ہوگا۔ نئے سوشل کنٹریکٹ میں عام آدمی ریاست کامالک ہوگا۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں