234

نواز حکومت کرپشن کیسے کرتی رہی ہے۔

کارپوریٹ انڈسٹری میں انویسٹمنٹ سٹریٹیجی ‘ خریدا جائے یا کرایہ پر لیا جائے ‘ کی بنیاد پر بنائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک کمپنی کو اپنے ایک خاص ایونٹ کیلئے جدید پراجیکٹر سکرین اور ساؤنڈ سسٹم کی ضرورت پڑ گئی جس کی قیمت 30 لاکھ روپے ہے، لیکن اس کمپنی کو پتہ ہے کہ اس ایونٹ کے بعد اس ایکوئپمنٹ کے دوبارہ استعمال کرنے کے چانسز بہت کم ہیں تو پھر بجائے اسے خریدنے کے، اسے ڈیڑھ یا دو لاکھ روپے رینٹ پر لے کر اپنا کام چلا لیا جاتا ہے۔

لیکن اگر یہ ایونٹ ہر سال دس مرتبہ منعقد ہوتا ہے تو بجائے ہر سال کرائے کی مد میں 15 سے 20 لاکھ خرچ کرنے کے، اس ایکوئپمنٹ کو خریدنے کا زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

نوازحکومت نے نے شاہد خاقان عباسی کی وزارت پٹرولیم کے زریعے سیٹھ داؤد کا ایک ایل این جی ٹرمنل کرائے پر حاصل کیا، کیونکہ اس ٹرمنل کے زریعے قطر سے امپورٹ شدہ ایل این جی سٹور کرکے آگے ڈسٹری بیوٹ ہونا تھی۔ اس مقصد کیلئے نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی نے اس ٹرمنل کو 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر روزانہ کے کرائے کے حساب سے حاصل کرلیا اور سیٹھ داؤد کو یہ رقم جو پاکستانی کرنسی میں 3 کروڑ بنتی ہے، ادا کرنا شروع کردی۔

اس کے بعد نوازحکومت نے پچھلے سال قطر حکومت سے ایل این جی کی ڈیل کی جو تقریباً 15 سال تک چلے گی اور اس کے بعد مزید 10 سال کی ایکسٹینشن ممکن ہوسکے گی۔

ایک اچھی استعدادی صلاحیت کا ایل این جی ٹرمینل بنانے کی لاگت تقریباً ڈیڑھ سو ملین ڈالر آتی ہے۔ جو ٹرمینل اینگرو کے سیٹھ داؤد کے پاس ہے، وہ فلوٹنگ یعنی موبائل ٹرمنل ہے جو استعداد کے لحاظ سے کم اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بہت پائیدار بھی نہیں۔ اس ٹرمینل کو آپ بآسانی کوریا، چائنہ یا جاپان سے 70 سے 100 ملین ڈالر میں خرید سکتے تھے۔

اب زرا کیلکولیٹر لے کر آجائیں۔

1۔ دو لاکھ 72 ہزار ڈالر روزانہ کے حساب سے نواز حکومت سیٹھ داؤد کو ایک سال میں 99 ملین ڈھائی لاکھ ڈالرز ادا کرے گی، یعنی اس ٹرمینل کی مکمل لاگت سے 25 فیصد زیادہ رقم ایک سال میں ہی ادا ہوجائے گی

2۔ اگر حکومت کرائے پر لینے کی بجائے 3 فیصد انٹرسٹ پر قرض لے کر ایک اچھی استعدادی صلاحیت کا ٹرمینل تعمیر کرلیتی تو اس کی مجموعی لاگت 150 ملین ڈالر تک آتی. یہ ٹرمینل 25 سال تک استعمال ہوتا، اگر آپ 150 ملین ڈالرز کو 25 پر تقسیم کریں تو سال کا صرف 6 ملین ڈالر بنتا ہے، یعنی صرف 16 ہزار 500 ڈالر روز کی لاگت۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کرائے پر لیا گیا چھوٹی کیپیسٹی کا ٹرمنل ہمیں روزانہ کی مد میں 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر کا پڑتا ہے اور اگر اسے خود تعمیر کیا گیا ہوتا تو یہی خرچہ صرف ساڑھے 16 ہزار ڈالر روزانہ ہوتا۔

2 لاکھ 55 ہزار ڈالر روزانہ کی مد میں بچت ہوتی، جو کہ پونے 3 کروڑ بنتے ہیں ۔ ۔ اس رقم میں ایک اچھا پرائمری یا ہائی سکول تعمیر ہوسکتا ہے ۔ ۔ ۔

زرا سوچیں، صرف ایک ٹرمینل اپنا تعمیر کرنے سے اگلے 25 سال تک ہم ہر روز کے حساب سے پونے 3 کروڑ روپے کا ایک نیا سکول کھول سکتے تھے, یعنی اس قوم کو 9 ہزار نئے سکول میسر آتے، جن میں 50 لاکھ سے زائد ایسے طالبعلم تعلیم حاصل کرسکتے تھے جن کیلئے اس وقت تعلیم کا حصول ناممکن ہے۔

مجھے کوئی ایک وجہ بتائیں کہ میں ان حکمرانوں کو حرام خور کیوں نہ کہوں؟؟؟؟ بقلم خود باباکوڈا
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں