301

آخری پکار جو پچھتاوا بن گئی۔ ⁩

شدید گرمی میں دھوپ کی تمازت نے اسکی صاف رنگت جلد کے ساتھ ساتھ اسکے مزاج کو بھی جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ یہ موسم گرما کی سخت سرگرمیوں کا ایک گرم دن تھا۔ جب وہ پولیس ٹریننگ کالج سے اپنے گھر واپس لوٹا تھا۔ یوں تو گھر میں موجود دو ہی لوگ ہوا کرتے تھے جو اسکا خیر مقدم کیا کرتے تھے مگر ان دنوں اسکی پھوپھی امی بھی اپنے میکے آئی ہوئی تھیں۔ رسمی سلام دعا کرتا وہ سیدھا اپنے کمرے میں گھس گیا اور دروازہ بند کردیا۔ شاید اسے اس گھر میں ان دو ہستیوں کے علاوہ کوئی بھی تیسرا شخص اہم نہ لگتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ پرواہ بھی ان ہی دو لوگوں کی کرتا تھا۔ وہ دو ہستیاں جنھوں نے ہمیشہ اسکا ساتھ دیا اور زندگی کے ہر نشیب و فراز میں اسکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ وہ اور کوئی نہیں تھے مگر اسکے دادا اور دادی ہی تھے۔ 

والدہ کی وفات کے وقت جب وہ ایک کمسن سا بچہ تھا اسکی دیکھ بھال کا سارا ذمہ دادا دادی نے اٹھا لیا تھا۔ ابا زیادہ تر کام کے سلسلے میں شہر سے باہر ہی رہتے تھے اور ماہ دو ماہ میں کبھی ایک بار کچھ دیر کےلئے دادا اور دادی سے ملنے آجاتے اسے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ ابا نے کبھی اس سے دو میٹھے بول بھی بولے ہوں یا اپنے پاس بٹھا کر اس کا حال ہی پوچھ لیا ہو۔ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی تمام منازل کس طرح سے طے ہوئیں وہ صرف وہی جانتا تھا۔ بچپن سے جوانی تک کبھی بھی گھر سے باہر کوئی دوست نہ بنایا، عام دن ہوں یا کوئی بھی تہوار، اسکا دن کتابوں سے ہی شروع ہوتا اور اِن پر ختم ہوجاتا۔ ہر ہفتے چچا جان جب بھی دادا دادی سے ملنے آتے تو اپنے ساتھ ڈھیروں کتابیں اور رسالے لے آتے وہ جانتے تھے کہ ان کے بھتیجے کو کتابیں بے پناہ پسند ہیں۔ 
وہ جب بھی آتے اسے کچھ جیب خرچ بھی دے جاتے جن کو وہ بہت احتیاط سے خرچ کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دن اپنی رفتار سے گزرتے گئے یہاں تک کہ وہ یونیورسٹی جانے لگا۔ مزاج میں انتہائی سنجیدگی در آئی تھی اور رویہ بہت ذمہ دارانہ ہوگیا تھا۔ اس عمر میں جب لڑکے اپنی جوانی کے دن عیاشی میں گزار رہے ہوتے ہیں وہ اپنے کاندھوں پر اپنے گھر کی ذمہ داری کو محسوس کرتا تھا۔ انہیں حالات کے پیش نظر اس نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ جاب بھی شروع کر دی۔

اس دن سورج سوا نیزے پر تھا اسکی حالت گرمی سے نڈھال تھی۔ وہ پولیس ٹریننگ کالج سے دو دِن کی چُھٹی ہوتے ہی سیدھا گھر آگیا تھا۔ کمرے میں گھستے ہی تیز رفتار سے پنکھا چلا کر پلنگ پر نیم دراز ہوگیا۔ باہر صحن میں نیم کے درخت کے نیچے پھوپھی امی دادی کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہیں تھیں سب کچھ بہت پر سکون چل رہا تھا کہ تھوڑی دیر میں دادی نے اسے آوازیں دینی شروع کر دیں وہ مسلسل اپنی چارپائی پر دراز اس کو بلا رہی تھیں۔ مگر وہ کچھ دیر تک سکون سے آنکھیں موندے لیٹنا چاہتا تھا اسے دادی کی آوازیں آرہی تھیں وہ پھوپھی امی سے بار بار اسکا پوچھ رہیں تھیں انھیں پتا چل گیا تھا کہ اسکی طبیعت آج ٹھیک نہیں ورنہ وہ روزانہ اپنی دادی کے پاس بیٹھتا ہے۔ کچھ دیر تک دادی کی آوازیں آتی رہیں اور وہ ان کی آوازوں کو لاشعوری طور پر سنتے ہوئے بھی نظر انداز کرتا سوگیا۔
 ابھی آنکھ لگے بمشکل دس منٹ ہی گزرے تھے کہ اچانک اسکے کمرے کے دروازے پر تیز تیز دستک کی آواز نے اسے جگا دیا ہوش سنبھالتے ہی اسے محسوس ہوا کہ پھوپھی امی زور زور سے اسکا نام پکار رہیں تھیں اور وہ زار و قطار رو بھی رہی تھیں۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور دروازہ کھول کر سیدھا دادی کی چارپائی کی جانب لپک گیا۔ دادی اپنی چارپائی پر بے حس و حرکت آنکھیں موندے جیسے سو رہی تھیں۔ اتنے میں پیچھے سے پھوپھی امی روتے ہوئے کہتی آئیں؛ “انھیں جلدی ہسپتال لیکر جانا ہوگا، کچھ دیر پہلے تک تمھارا کہتے کہتے اچانک سے خاموش ہوگئیں اور اسکے بعد سے بالکل ساکن ہیں، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ تم جلدی سے ایمبولینس لیکر آؤ ہمیں ابھی ہسپتال جانا ہوگا”۔
پھوپھی امی کی آوازیں اسے کہیں بہت دور سے کھائی میں سے آتی سنائی دے رہیں تھیں۔ 
وہ خود سکتے کی کیفیت میں نیم کے درخت سے سر ٹکائے اپنی دادی کے مردہ وجود کو بیٹھا تکتا رہا۔ آنکھوں سے کتنے ہی آنسو بہہ گئے اسے اپنے گرد صرف اندھیرا ہی دکھائی دے رہا تھا وہ اپنی جگہ منجمد ہوگیا تھا۔ اسے کچھ یاد نہیں تھا کہ کب کون آیا اور کب کون گیا۔ آگے پیچھے رونے والے کون لوگ تھے اور اسکا ان سے کیا رشتہ تھا۔ اسے احساس تھا تو بس یہی کہ آج اسکی “ماں” اسے چھوڑ گئی تھی۔ تب جب اسکی سگی ماں کی وفات ہوئی تھی اس وقت وہ چند ماہ کا کمسن بچہ تھا۔ لیکن آج اسے بچھڑنے کی اذیت کا شدت سے احساس تھا اور جو درد اسکے دل میں اٹھ رہا تھا اس درد کو صرف وہی محسوس کر سکتا تھا۔

کبھی ہم کِسی کی آواز سُن نہیں پاتے یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُس آواز کو یا پُکار کو ہم ذرا نظرانداز کر جاتے ہیں پھر ایسا پچھتاوا ہمارا ساتھی بنتا ہے جو تا عُمر ساتھ نہیں چھوڑتا ۔ خُود کو دِی جانے والی ہر آواز اور پُکار کو سُنیں کون جانتا ہے کہ شاید وُہ پُکار آخری ہی ہو ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں