Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
227

صدر ٹرمپ کا عمران خان کو خط، تجزیہ کار کیا کہتے ہیں

پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھا ہے جس میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے پاکستان سے مدد کی درخواست کی گئی ہے۔

امریکہ کے صدر نے اپنے خط میں زور دیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کو اپنےتعلقات کی تجدید اور ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے یہ خط ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ افغان مفاہمت کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد، افغانستان، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے دورے پر ہیں۔

اس سلسلے میں وائس آف امریکہ کے قمر عباس جعفری نے اردو سروس کے پروگرام جہاں رنگ میں دو ماہرین، دفاعی امور کے پاکستانی تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈیر عمران ملک اور افغان پارلیمنٹ کے رکن انجینئر کمال سے گفتگو کی۔

صدر ٹرمپ کے خط پر گفتگو کرتے ہوئے افغان رکن پارلیمنٹ انجینئر کمال نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے افغان مسئلے کے حل کے لئے کردار ادا کرنے کو کہا ہے۔ پہلے بھی اس قسم کی باتیں ہو چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خط اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکی اپنا کردار ادا کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور علاقے میں جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں وہ ان سے مثبت کردار کی توقع کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس جنگ کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو سب سے اہم رول پاکستان کا نظر آتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس موقع پر اس خط کا ایک اور یہ سبب بھی نظر آتا ہے کہ خلیل زاد کے دورے سے پہلے ایک مائنڈ سیٹ بنایا جائے تاکہ اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے سازگار ماحول بن سکے۔

انجئنیر کمال کا کہنا تھا کہ امریکہ اس کام میں تمام علاقائی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا چاہتا ہے۔

جبکہ بریگیڈیئر عمران ملک کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سے یہ ایک انتہائی مثبت اقدام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکی صدر ڈیل چاہتے ہیں تو پاکستان کو بھی ڈیل کی ضرروت ہے اور اس ڈیل میں وہ اپنے مفادات کا تحفظ بھی کرے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اپنی کوششوں سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر پاکستان کو بھی اپنے لئے امریکہ سے چند چیزیں مانگنے کی ضرورت ہو گی۔ جس سے بات چیت کی کامیابی کے لئے ماحول بن سکے۔ اور ان میں پاکستان کے خلاف امریکہ کی جانب سےعائد فوجی اور اقتصادی پابندیوں کا اٹھایا جانا اور کشمیر اور دوسرے مسائل کے سلسلے میں بھارت کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات میں امریکہ کا ر ول شامل ہونا چاہیے

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح افغانستان میں بھی امن آ جائے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی امن قائم ہو جائے گا۔ یوں پورا خطہ پرامن ہو جائے گا جس سے اقتصادی ترقی کے دور کی شروعات ہو جائیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں