211

پاکستان میں کونسا قانون ہونا چاہئیے؟

پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور یقیناً اس میں اسلامی قانون ہی ہونا چاہئیے۔ اسلامی قانون نافذ کرنے کیلئے پاکستان میں پہلے لوگوں کی سوچ اور انکی عملی زندگی میں اسلام کتنا ہے پر بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ عملی طور پر پاکستان میں زیادہ تر کام اسلام کے الٹ ہو رہے ہیں۔

پاکستانی مسلمان ماضی میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ہر وقت ماضی ہی ڈسکس کرتے ہیں۔ مثلاً اسلام عظیم مذہب ہے اور بدر میں 313 مسلمانوں نے ہزاروں کافروں کے چھکے چھڑوا دئیے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ یقیناً عظیم تھے اور انکی زندگیوں میں بھی اسلام تھا اور وہ عربی لوگ تھے جبکہ پاکستان انڈیا کے مسلمانوں نے آج تک کیا کیا ہے؟ چند عظیم بزرگ جو باہر سے آئے اور اپنے حسن سلوک سے کڑوروں لوگوں کو مسلمان کر گئے انکے علاوہ پاکستان انڈیا میں موجود مسلمانوں نے سوائے فرقے بنانے اور نفرت پھیلانے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔

انہیں نہ تو حال کی فکر ہے نہ ہی یہ مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ انہیں باتوں باتوں میں دین اسلام اتنا پسند ہے کہ اس پر ہر قسم کی زبانی کلامی لڑائی کرنے کو تیار ہیں مگر عملی طور پر انکی زندگیوں اسلام کتنا ہے اس پر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پاک و ہند کے مسلمانوں کی حالت زار اور منافقت بیان کرنے کیلئے علامہ اقبال کے جواب شکوہ کے یہ اشعار ہی کافی ہیں۔

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں 
اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں 
بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں 
تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں 
بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے 
حرمِ کعبہ نیا ، بُت بھی نئے ، تم بھی نئے 
جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو 
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو 
بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو 
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو 
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے 
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟ 
صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟ 
نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟ 
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟ 
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟ 
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟ 
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو ! 
منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک 
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک 
حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک 
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟ 
فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں ! 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟ 

نبی صلی اللہ وسلم اورخلفائے راشدین کے زمانے میں اسلام صرف ایک فرقہ ہوتا تھا اور تمام قوانین اسلام کے مطابق بنتے تھے اور ان پر عمل درآمد بھی ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان انڈیا کے مسلمانوں میں چار بڑے فرقے بنے ہوئے ہیں بریلوی، دیوبندی، وہابی اور شیعہ اور یہ چاروں فرقے اپنے آپ کو جنتی اور ساتھ والے فرقے کو جہنمی کہتے ہیں ہر فرقہ دوسرے سے نفرت کرتا ہے اور دوسرے کو مذہب سے خارج تصور کرتا ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں صرف دو ملکوں ایران اور سعودی عرب میں کچھ اسلامی قوانین نافذ ہیں جبکہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے والا اسلام ان ملکوں میں بھی نہیں ہے۔ ان ملکوں میں جو اسلام نافذ ہے اسکی کامیابی بھی صرف اس لئے ہے کیونکہ دونوں ملکوں میں ایک خاص فرقہ بہت زیادہ اکثریت میں ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی فرقہ اکثریت میں نہیں ہے لحاظہ پاکستان میں بریلوی دیوبندی، شیعہ اور وہابی اسلام الگ الگ کیسے نافذ ہو سکتا ہے؟؟؟؟

اسلام عظیم مذہب ہے سچا مذہب ہے اسی میں کامیابی ہے یہ بات تمام مسلمان جانتے ہیں اور اس پر بحث نہیں ہے۔ بحث اسلام کو عملی طور پر نافذ کرنے میں ہے۔ جو مسلمان مذہب اسلام کے ساتھ مخلص ہے وہ قرآن کی اس آیت پر عمل کر کے فرقوں سے باہر نکل جائے گا اور ایک امت بنے گا۔

اللہ تعالی قرآن میں سورۂ الانعام آیت 159 میں فرماتے ہیں:

بےشک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ الله کے حوالہ ہے پھر وہی انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے رہے تھے۔

جو مسلمان پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ چاہتا ہے اسے چاہئیے کہ فرقوں سے نکل کر ایک امت بن جائے صرف اسی صورت میں پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ ممکن ہے

جو بندہ فرقوں کی محبت میں غرق ہے اور اسلام کا نفاذ بھی چاہتا ہے وہ احقموں کی جنت میں رہتا ہے اور ایسا قیامت تک نہیں ہوسکتا۔ اسلام کا نفاذ فرقوں سے نکل کر ہی ممکن ہے۔

دوسری صورت ملک میں سیاست اور مذہب کو علیحدہ کر دیا جائے اور لوگ اپنی ذاتی زندگیوں میں مذہب اسلام کی پریکٹس کریں اور آپس میں پاکستانی شہری ہونے کے ناطے پیار محبت سے رہیں۔ فرقے علیحدہ ہونے کے باوجود ایک قوم بنیں اور مل کر پاکستان کی ترقی کیلئے کام کریں۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: center; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p4 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: center; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545}
p.p5 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: center; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں