259

عائشہ گلالئی ایشو پر ہمارا حرفِ آخر۔

گزشتہ روز کا ڈرامہ جس بدترین ناکامی سے دو چار ہوا، اس سے نہ صرف عوام بلکہ عمران خان کے مخالف مؤقف رکھنے والے احباب نے اس مذموم کوشش پر تنقید کی، باقی کہانی تو کل لکھ دی، آخری پوائنٹ یہ دینا چاہوں گا کہ جس عمران خان نے آج تک اپنی پہلی بیوی کے متعلق ایک لفظ نہ کہا، آج بھی اس کا نام ادب و احترام سے لیتا ہے، بلکہ اس ریحام خان کے متعلق بھی زبان پہ تالہ لگائے رکھا، جس نے ایک منصوبے کے تحت عمران خان کو گھیرا، اس کی زندگی میں آئی، اور پھر ناکام لوٹی، علیحدگی کے بعد ریحام نے کون سا موقع ہاتھ جانے دیا جب عمران خان پہ تنقید نہ کی ہو؟ کبھی ن لیگیوں سے مل کر، کبھی اے این پی والوں کے جھرمٹ میں، حتیٰ کہ گزشتہ دنوں بلاول سے پہلی ملاقات کے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ بلاول سے پہلی ملاقات میں ہی جتنا سیاسی شعور دیکھا، اتنا خان صاحب میں نو مہینے نہیں دیکھا۔۔۔۔ لیکن ریحام کے ہر ہر تیر پر عمران خان مکمل خاموش رہا۔

طلاق کے ابتدائی دنوں میں جب میڈیا نے عمران خان سے اس موضوع پر بات کی تو سختی سے منع کیا، اور بار بار اس بات کا اعلانیہ کیا کہ علیحدگی کے باوجود وہ ریحام خان کے خلاف ایک حرف برداشت نہیں کریں گے، یقیناﹰ جہاں عورت جذباتی، جلدباز یا پھر کہیں مکر بھی کرجاتی ہے، لیکن مرد اگر کمینگی پہ اترے تو اس سے بڑا کمینہ بھی کوئی نہیں ہوتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی جوانی عیاشیوں میں گزری، اس نے ہزاروں غلطیاں کی ہونگی، وہ غلطیاں پاکستان کے کس کھلاڑی میں نہ ہوں گی؟ سیاسی جماعتوں کے شراب و کباب کے رسیا رہنماؤں سے کون واقف نہیں، لیکن جس انداز سے عائشہ گل نے ایک Hot Script پر Desperate Acting کی اور اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مار گئیں، کیونکہ عمران خان اگر اس درجے کا بدکردار ہوتا کہ اسے عائشہ گلالئی کو ٹیکسٹ میسجز بھیجنے پڑتی تو عمران خان قندیل بلوچ اور ڈاکٹر زویا علی جیسی بیسیوں کو کوئی رسپانس دے دیتا، جو ویڈیوز بنا بنا کر فیس بک پہ لگاتی اور ٹی وی پہ آفرز کرتی تھیں، میں مصدقہ طور پر تین اینکرز اور مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والی چار یا پانچ معروف خواتین کے بارے میں جانتا ہوں کہ عمران خان کو شادی کی آفر کرچکی ہیں، لیکن عمران کی جانب سے کسی قسم کا وئی رسپانس نہیں دیا گیا۔

خان اس بڑھاپے میں بھی اتنا ہی ہوس کا مارا ہوتا تو سر اور دھڑ جھکا کر اوپر گر کر سوال کرنے والی غریدہ فاروقی کو ایک نظر دیکھ لیتا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان پر کم از کم ایسا گھٹیا الزام لگا کر عائشہ گلالئی ساتھ خود کو نتھی کرکے نہ صرف پختونولی کی توہین کی، بلکہ اپنی عزت بھی داؤ پر لگا دی، باقی ہر وہ پختون عورت جو این جی اوز، یا پھر ایسی جماعتوں کے پلیٹ فارم پر قبائلی روایات سے بغاوت کا چورن بیچتی ہیں، میرا دعویٰ ہے کہ گھروں سے عاق اور طلاق شدہ ہوتی ہیں، کیونکہ حقیقی پختون روایات کا امین برطانیہ میں بھی ہو تو اپنی لاج رکھتا ہے، جبکہ غیرت کا سودا کرنے پر اُترے تو اس پٹھان سے بڑا بے غیرت بھی کوئی نہیں بن سکتا ہے، یہ میرا دعویٰ ہے، آزما کر دیکھ لیں۔۔۔۔یعنی پٹھان بے غیرت نہيں ہوتا، جو بے غیرت بن جائے وہ پٹھان نہیں رہتا۔۔۔۔۔یہ پختونولی کا اصول ہے، کیونکہ لفظ پختو کہتے ہی غیرت، شرم اور حیاء کو ہیں۔۔۔۔

باقی اگر یہی سلسلہ رہا کسی کو دلیل کی جگہ ذلیل کرنے کا تو کل کو کوئی لونڈا اٹھ کر مولانا فضل الرحمٰن صاحب، سراج الحق یا ان کے کسی پارٹی راہنما کے بارے بھی ایسی بات کہہ دے تو کیا اسے تسلیم کیا جائے گا ۔۔۔؟ اس پر بغیر تحقیق جیو کی خصوصی ٹرانسمیشن چلائی جائے گی۔۔۔؟؟ بلکہ ن لیگ کے متعلق تو ماروی میمن، کشمالہ طارق، عائشہ احد ملک اور وہ ضلعی رہنما جس کی لاش ن لیگی وزراء کی دراندازیوں کے بعد کمرے سے ملی تھی۔۔۔۔کس نے تحقیق کی۔۔۔۔؟ کس نے آواز اٹھائی ۔۔۔۔؟ مگر اس پر کوئی نہ بولا۔۔۔۔۔ آج اگر جنگ اور جیو اور ن لیگ کی ملی بھگت سے عمران خان کو ذلیل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے تو کل اے آر وائی اور بول بھی کسی دوسری جماعت پر ایسے صحیح الزامات لگانے کیلئے کسی کا استعمال کرسکتا ہے۔

بہرکیف اس تمام ایشو میں عائشہ گلالئی کا باپ شمس وزیر سب سے بڑا بے غیرت نکلا، جو ضیاء الدین یوسفزئی کے بعد اپنی بیٹی کے ذریعے پختون کارڈ کھیلنے کی ناکام کوشش کرتا رہا، مگر پختون قوم کو خبر ہے کہ ان کی عورت عزت کے اس مقام پر ہے کہ جان بھی دے دیتے ہیں، لیکن میں پوری ایمانداری سے کہوں گا کہ قبائلی علاقوں میں غیر مرد کے سامنے سیاسی سرگرمیاں تو کیا، ووٹ ڈالنا بھی خواتین کی توہین سمجھی جاتی ہے، ایسے ماحول میں جو گلالائیں اور ملالائیں نکلتی ہیں، وہ اپنے علاقے کے سرٹیفائیڈ “بے غیرت” اور عاق شدہ تصور کئے جاتے ہیں، اسی نظرئیے کے تحت وانا اور فاٹا میں ایف سی آر کے کالے قوانین لاگو ہونے کے بعد جب برٹش گورنمنٹ کی لڑکیاں ان علاقوں میں وزٹ کیلئے آنے لگیں تو یہاں کے لوگوں نے خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دے کر کتبے لٹکائے، جن پر جملہ “Women Not Allowed” درج تھا، اس علاقے کو اسی نسبت سے مخفف میں WANA کہا گیا، اب ان تمام معاملات کو ذہن میں رکھ کر اس قضیئے پر سوچیں کہ جس عائشہ گلالئی کا والد اپنی بیٹیوں کو این جی اوز کیلئے استعمال کرتا رہا، پھر وزیرستان جیسے علاقے کے لوگوں سے دھتکارے جانے کے بعد بنوں کے ڈومیسائل پر گلالئی کو فاٹا کی خواتین کی خود ساختہ نمائندہ بنا کر سیاست میں لایا گیا ہو، وہ ن لیگ کے کھیل میں بآسانی آسکتے ہیں،

اسی رت میں بہہ کر شمس وزیر نے اپنی بیٹی کو استعمال کیا، غیور” عائشہ گلالئی آج کاشف عباسی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں
“عمران خان نے پہلا میسج اکتوبر 2013 میں کیا تھا، پہلے میسج پر والد کو بتایا تو انہوں نے کہا، اگلا میسج آنے دو۔۔۔ سیٹ سے استعفیٰ نہیں دوں گی”
یعنی “غیرت مند” باپ اور بیٹی کو چار سال بعد غیرت آئی۔۔۔۔اور اب آپ مجھے بتائیں، جس بے غیرت شمس وزیر کے این جی اوز کیلئے بیٹیوں کے استعمال کی بات میں کررہا ہوں، وہ “غیرت مند” بیٹی کو کہتا ہے، اگلا میسج آنے دو۔۔۔ ?  ? بتائیں یہ پختونولی ہے یا دلا گیری۔۔۔؟‌

جس مافیا سے عدالتیں، ججز، جرنیل اور بڑے بڑے سیاستدان اپنا ضمیر محفوظ نہ رکھ سکے، اس مافیا کے آگے گلالئی جیسے اناڑی کھلاڑی بائیں ہاتھ کی انگشتِ آخر کا کام ہے، ن لیگ نے ابھی تو صرف ایک ناکام سا ٹریلر دکھایا ہے، وہ بے نظیر کی فلم کی طرح عمران خان کی لانگ سٹوری فلم چلانے کیلئے دن رات کوشاں ہے، کیونکہ وزیراعظم ہاؤس میں مریم صفدر صاحبہ کی نگرانی میں چلنے والا میڈیا سیل اور پروڈکشن ہاؤس آج کل بالکل فری ہینڈ ہیں، میاں صاحب اور جملہ ملازمینِ پروڈکشن بھی کام کاج کے نہیں رہے، اس لئے ایسی ہی فلاپ فلمیں ریلیز کریں گے۔۔۔۔۔

لیٹس انجوائے اٹ۔۔۔۔۔!!

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p4 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Apple Color Emoji UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
span.s2 {font: 12.0px ‘.Apple Color Emoji UI’}
span.s3 {font: 12.0px ‘.Arial Hebrew Desk Interface’}

اپنا تبصرہ بھیجیں