348

ناکام محبت ( تیسری اور آخری قسط)

ایک دن صبح صبح موسم اچانک بدل گیا تھا شمائلہ ابھی سکول پہنچی تھی انکی سہیلی شبنم ویٹنگ روم میں انتظار کر رہی تھی۔

شبنم! ارے آج اتنی جلدی سکول کیوں آئی ہو ؟

شمائلہ ! بس آج موسم اچھا تھا نا اسلئے سوچا جلدی سکول جاؤں۔

باتیں کرتے کرتے ایک بار پھر شمائلہ کہیں کھو گئی تھی اسے یونیورسٹی کے وہ دن یاد آیا جب ہلکی ہلکی رم جھم تھی اور نوید کے ساتھ کیفے ٹیریا میں چائے پینے کے بعد دونوں نے کلاس نہ لینے کا فیصلہ کیا یوں پورا دن وہ بارش انجوائے کرتے رہے۔

شبنم ! یار میں بور ہورہی ہوں آپ پھر سے خاموش ہوگئی۔

شمائلہ! نہیں یار نوید کے ساتھ ہوں۔

شبنم ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کون نوید؟


شمائلہ! اچھا کوئی نہیں ایسے بس زبان پر آگیا۔

اب شبنم سمجھ چکی تھی خاموشی کے پیچھے اصل وجہ کیا ہے۔

شبنم اچھا تو بے بی کو نوید یاد آرہا ہے۔

شمائلہ! بس نا یار اب ایسا نہ کریں۔

یہ کہتے ہوئے آنکھ میں آنسو بھر آئے۔

شبنم ! چلیں آج سناؤ کیا پتہ میں تمھاری مدد کروں کم سے کم روز روز کی یہ خاموشی تو ختم ہوگی۔

شمائلہ! جی کل چٹھی ہے آپ میرے ساتھ گھر آئے وہاں میں ساری کہانی بتادوں گی۔

اگلے دن شبنم بہت ہی تجس کے ساتھ کے شمائلہ کے گھر پہنچی گھر والوں سے ملاقات کے بعد دونوں شمائلہ کے کمرے چلے گئے فورا بولی اب کہانی شروع کریں مجھ سے اور برداشت نہیں ہوتا ہے۔

شمائلہ ! نے موبائل پا س رکھی اور اپنی روداد پہلے دن سے سنانی لگی۔

شبنم خاموشی سے سب سنتی رہی اور شمائلہ کی موبائیل سامنے پڑی دیکھ کر اٹھالیا

شمائلہ اب کہانی کے ساتھ یادوں میں کھو گئی تھی۔
اتنے میں نوید کا مسیج آگیا۔
ہیلو

شبنم نے ریپلائی کردیا۔

ہاں جی سنائیں۔

نوید آج تیور کافی بدلہ ہوا ہے خیرہے تو ہے نا۔

شبنم نے جواب دی جی ہاں کیا پتہ قسمت کی خیر نہیں تھی پر ہم ملے کیوں تھے؟

نوید! یہ کیا سن رہا ہوں آج۔

شبنم ۔جی یہی جو سن رہے ہو۔

نوید! ہوا کیا ہے پلیز بتاؤں نا۔

شبنم! کچھ نہیں شمائلہ کی منگنی ہوئی ہے ۔

نوید! تو آپ کون ہو؟۔

شبنم! میں شمائلہ کی سہیلی

نوید! شمائلہ کدھر ہے۔

شبنم ۔جی وہ دوسرے کمرے میں ہے ۔

نوید ! کیا میں آپکو کال کرسکتا ہوں۔

شبنم نے سوچا اب یہ موقع ہے سارا سچ بتادوں اُدھر نوید نے سوچا انکی سہیلی کو ساری صورتحال بتادوں۔

شبنم نے شمائلہ کو بولی یار کچھ نہیں ہوا ہے جو اللہ کو منظور تھا وہی ہوگیا پریشان مت ہونا اللہ مالک ہیں۔

شمائلہ ! بس یار کچھ سمجھ نہیں آرہا ہیں۔

شبنم ۔ چلیں پانی لے آئیں میں زرا گھر بات کروں امی سے کچھ کہنا تھا اب یاد آگیا ہے۔

شمائلہ باہر نکلی تو انکی امی بولی ہم دونوں بازار چلتے ہے آپکی سہیلی آئی ہے انکے لیے کچھ لے آتے ہے بچے بھی باہر کھلنے گئے اسلیے تم میرے ساتھ آو۔

شمائلہ پانی دیکر بولی آپ اددھر رہنا میں امی کے ساتھ باہر جا رہی جلدی واپس آؤنگی۔

جیسے ہی شمائلہ امی کے ساتھ گھر سے باہر نکلی تو شبنم نے نوید کو کال لگائی۔

ابتدائی تعارف کے بعد انہوں نے نوید کو ساری کہانی سنائ تو نوید کہنے لگا ۔

واہ یار کیا اتفاق ہے شروع سے ہم دونوں اس بات پے خوش تھے کہ ہماری ہر بات اور ہر چیز میں مماثلت اور مشترک تھی لیکن کیا پتہ یہ حادثہ بھی ایک ساتھ اسطرح ہوجانا تھا۔

شبنم ! کیا مطلب میں نہیں سمجھی۔

نوید! جی جو انکے ساتھ ہوا ٹھیک سب کچھ میرے ساتھ بھی ہوا ہے اور گاؤں کے رسم و رواج بھی یہی ہے جو انکے گاؤں کے ہیں۔

شبنم! اچھا بس یہ سب اللہ کو منظور تھا انسان بے بس ہے کچھ نہیں کرسکتا ہے اب بس صرف خوبصورت یادیں رہ گئی ہے۔

نوید ! ہائے یار بس کیا کر سکتے ہیں۔

اب چونکہ راز کھل گیا تھا اور شبنم کو بھی آسانی ہوئی تھی کہ کس طرح شمائلہ کو سمجھایا جائے۔

کافی دیر نوید سے بات ہوتی رہی پھر شبنم نے اس وعدے کے ساتھ بات کال کاٹ دی کہ وہ اب اس معاملے کو سنبھالے گی۔

شمائلہ جب بازار سے واپس آئ تو دیکھتی ہے شبنم مسکرا رہی ہے اور چہرے پے بھی مسکراہٹ عیاں ہے جو چاہتے ہوئے بھی چھپا نہیں سکتی ہیں۔

شمائلہ! اکیلے گھر میں کیا جنات دیکھ لیے ہنسی رک نہیں رہی ہے تمھاری؟۔

شبنم ! ہاں یار ایک جن دیکھ لیا ہے آج۔

شمائلہ نے جب اپنی موبائیل ان سے لیا تو نوید کی مسیج آئ تھی کہ شمائلہ کا بہت بہت خیال رکھنا۔

مسیج دیکھ کے وہ چونک گئی اور کال ہسٹری دیکھی تو وہاں بھی کال تھی۔

شمائلہ! یہ کیا دیکھ رہی

شبنم! جی آپکی نوید کا کال آئی تھی میں نے بات کی اور انہیں سب بتادی۔

شمائلہ! کیا؟؟ کیوں یار اب وہ کیا سوچے گا؟

شبنم! جی کچھ نہیں سوچے گا

جو شروع دن سے آپ دونوں کے ساتھ ہر بات ایک ہوتی رہی وہی کیا سمجھتی ہو اب بات بھی ایک نہیں ہوگی۔

شمائلہ سمجھ گئی تھی شبنم کیا کہنا چاہتی ہے۔

پھر خاموشی سے رونے لگی ساتھ میں شبنم نوید سے کال کے بارے میں بتاتی رہی کہ اور ساری بات بتادی۔

شمائلہ نے نوید کو مسیج کی اور مبارکباد دی ساتھ یہ بھی بولی کانوکیشن کے ملاقات ہوگی۔

نوید نے بھی سیم ٹو یو کہا۔

پھر شمائلہ نے اسی وقت وہی نمبر موبائیل نکال کے سم بند کردی۔

اب دونوں کو گھر کی اصل صورتحال کا پتہ چلا تھا اسلئے آدھی پریشانی تو دور ہوگئی مگر یادیں انکا ساتھ نہیں چھوڑ رہی تھی۔

اللہ اللہ کرکے کانوکیشن کا دن آگیا اب شمائلہ نے پہلا نمبر بند کر دی تھی اسی کے ساتھ نوید کا نمبر بھی بند ہوا تھا۔

جب کانوکیشن کے لیے دونوں یونیورسٹی پہنچے تو ایک دوسرے کو ڈھونڈتے رہے مگر ناکام ہوئے پھر جب اعلان ہوا کہ تمام طلباء وہ طالبات کانوکیشن حال میں تشریف لے آئے۔

شمائلہ جیسے ہی حال میں داخل ہوئ تو سامنے نوید کو دیکھ لیا اور نوید نے بھی شمائلہ کو دیکھا مگر شمائلہ دوسری طرف مڑگئی اور دوسری سائیڈ والی نشست پے بیٹھ گئی اب دونوں ایک دوسرے کو چھپتے دیکھتے رہے تھے لیکن ساتھ میں یہ بھی ظاہر یہ کر رہے تھے کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔

کانوکیشن کا آغاز ہوا سب طلباء کو ڈگریاں دے دی گئی پھر جب باہر نکلے تو وہی گیٹ پے آگئے دونوں جہاں سے فائنل پیپرز کے بعد ایک دوسرے کو الوداع کیا تھا ۔

پاس آئے مگر بات نہیں کرسکے ایک دوسرے کو دیکھتے ہی رہ گئے اتنے میں شمائلہ کی گاؤں جانے والی بس آگئی وہ جلدی سے بس میں سوار ہوئی۔

اور آگے چوک سے گاڑی کے مڑنے تک نوید کو دیکھتی رہی اور جیسے ہی گاڑی مڑنے لگی تو ہاتھ ہلا کر الوداع کیا اور نوید نے بھی ہاتھ ہلا کر الوداع کہ دیا۔

ﺍﮎ ﺣﻮﺻﻠﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ
ﭘﮭﺮ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﮍ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﺗﺮ ﮔﺌﯽ
ﮨﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺯﯾﺮ ﻭ ﺯﺑﺮ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﮯ

اپنا تبصرہ بھیجیں