312

’’ نعیم بخاری اور طاہرہ سید کی طلاق میں نواز شریف کا کردار‘‘

آج سے تقریباً 40 سال پہلے پاکستان میں ایک ابھرتا ہوا نوجوان وکیل اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر مختلف حلقوں میں موضوع سُخن تھا ۔وکیل صاحب نے اُس وقت کے واحد سرکاری ٹیلی ویژن سے بہترین پروڈیوسر اور عظیم لکھاریوں کی معاونت سے کئی یادگار پروگرام بھی پیش کئے ۔ وکیل نے اپنی مسکراہٹ ، ظرافت اور خوبصورت جملوں کے انتخاب سے ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنایا اور یوں عوام میں زبردست شہرت حاصل کی ۔اس سچی کہانی کے دوسرے کردار کا تعلق پاکستان کی مقبول سنگر گھرانے سے ہے ۔ اسی گھرانے کی سنگر کی طرفسے بڑھاپے کی عمر میں گائے جانے والا نغمہ “ابھی تو میں جوان ہوں، ہوا بھی خوشگوار ہے “نے بے شمار بوڑھوں کو گزرتی عمر کا احسان نہیں ہونے دیا۔

 گلوکارہ کی ایک خوبصورت بیٹی بھی سرور و آواز کی نگری میں وارد ہوئی ۔ اس زمانے میں اچھی موسیقی اور بہترین آوازوں کے ساتھ ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک خوبصوت ترین چہرے موسیقی کی دنیا کو یادگار بنارہے تھے۔ اس کلاسک دور میں میڈم نورجہاں ، اقبال بانو، فریدہ خانم ، مسرت نظیر ، ناہید اختر ، سلمیٰ آغا ، ناذیہ حسن وغیرہ کے نغموں نے سماعت اور بصارت دونوں حسوں کو تسکین پہنچائی ۔ ایسے وقت میں تمام خصوصیات کی حامل اس گلوکارہ کی موسیقی کی دنیا میں وارد ہونا ایک خوشگوار اضافہ ٹھہرا ۔ موسیقی کی بہترین تربیت ، خوش آوازی ، خوبصورتی اور سب سے بڑھ کر دلکش اداؤں نے اس دختر دلربا کو صداکاری اور اداکاری کے مقبولیت کی اس معراج پر لا بٹھایا، جہاں اس کے لیے برابر کا ساتھی ملنا بہت دشوار ہوچکا تھا۔ 
موصوفہ نے مردانہ وجاہت سے بھرپور نوجوان وکیل اور مقبول ٹی وی میزبان کو ہی اپنا ہم پلہ سمجھا اور یوں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ۔لیکن خوشگوار شادی شدہ زندگی ، بیٹے کی نعمت و بیٹی کی رحمت اور ہر دلعزیزی کو نظر بد لگ گئی ۔کہانی کا تیسرا کردار پاکستان کا ابھرتا ہوا سیاستدان ہے ۔ تقیرباً 40 سال پہلے جب فوجی حکمرانوں کو بناوٹی جمہوریت کی ضرورت پیش آئی تاکہ عوام کو مزید کچھ عرصہ خاموش رکھا جاسکے ۔تو کئی ایک طالع آزماؤں کو مقاصد کے حصول کے لیے میدان میں اتارا گیا ۔ اور لوگوں کے علاوہ فوجیوں کی گود میں پھلے بڑھے ایک شہری و کاروباری شخص کو صوبائی وزیر بناکر بطور خصوصی مہرہ آزمایا گیا ۔ جب کارندے نے بہترین جی حضوری دکھائی تو بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کا منصب اس کا اگلا مقام ٹھرایا گیا ۔وزیراعلیٰ صاحب نے مقتدر حلقوں کے امور سرانجام دینے کے ساتھ اپنے کاروبار کو ایسی وسعت دی کہ اس کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔اگلے انتخابات کے وقت فوجی حکمران تو زندہ نہ رہا لیکن اس کی سوچ فضا میں موجود رہی ۔ مخالفین کو میدان سے باہر رکھنے کے لیے اپنی ہی نرسری کے سیاستدان کو سابقہ حسن کارکردگی کی بنیاد پر 9 ہمخیال جماعتی اتحاد کا سربراہ بنایا گیا ۔ ایک بڑی سرکاری رقم کے ذریعے دائیں بازو ، قدامت پرست و نیم مذہبی خیالات کے

ووٹر کو باور کرایا گیا کہ یہی اتحاد ہی پاکستان کو نظریاتی مملکت کے طور پر متحد رکھ سکتا ہے ۔ بھر پور کوشش کے باوجو مرکز میں یہ اتحاد حکومت نہ بنا سکا البتہ پنجاب میں یہی سیاستدان وزیراعلیٰ اور اس کے چھوٹے بھائی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ اگلے انتخابات کے لیے زیادہ انتظار نہیں کروایا گیا اور جب دو سال بعد انتخابات ہوئے تو اس بار سابقہ تجربے سے سیکھتے ہوئے بغیر کسی غلطی کے من پسند اتحاد کو جتوایا گیا اور موصوف صاحب پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ وزیراعظم صاحب نے ملک کے خدمت سے زیادہ توجہ کرپشن پر دی اور دولت کے ڈھیر بنانے میں تو کامیاب رہا لیکن حکومت کو دو سال بعد گرانے سے نا بچا سکا۔

قارئین کرام ۔ سیانے لوگوں نے کہا ہے کہ دولت اپنے ساتھ خواہشات کے حصول کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ لاتا ہے جو اکثر مصیبتوں کا پیش خیمہ بنتا ہے ۔ اور اگر یہ دولت ناجائز طریقے سے کمائی جائے تو یہ اخلاقی گراوٹ کا سبب بھی بنتا ہے ۔ یہی کچھ اسی سیاستدان کے ساتھ بھی ہونا تھا لیکن قدامت پرست ووٹ بینک اور عوامی نمائندے کی حیثیت سے کھلے عام برائی میں پڑنا مشکل تھا ۔ لہٰذا ہر پُرکشش عورت پر نظر لگا کر شادی کی پیش کش کی جاتی رہی اور کچھ وقت گزرنے کے بعد خاموشی سے تعلقات ختم کردئے جاتے ۔ چھوٹے بھائی نے تو کئی قانونی شادیاں رچالیں ، پر موصوف کو سیاسی خوف نے ایسا نہیں کرنے دیا اور کوشش بسیار کے باوجود اپنی سوچ کو عملہ جامہ نہ پہنا سکے ۔اسی نودولتیہ سیاستدان نے اپنے ہم علاقہ صراحی دراز گردن خاتون گلوکارہ کو پہلے ہی سے اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا تھا ۔ اور جب حکومت میں آئے تو موصوفہ کو سرکاری انعامات و اکرامات سے نوازا گیا یہاں تک کہ مری کی چئیر لفٹ کے کروڑوں روپے کا سالانہ ٹھیکہ بھی دیا گیا اور ساتھ ہی محبت کے جھانسے میں شادی کی پیش کش کردی۔ 
سنگر بھی ایک اولوالعزم خاتون تھیں ، اور اسی خیال سے دل کو دھوکہ دیا کہ دولت اور حکومت ساتھ ہوں تو محبت اصلی ہو یا نقلی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ گلوکارہ کے گائے ہوئے ایک مشہور غزل کے اشعار موصوفہ کے لیے ہی لکھے گئے ہیں۔”یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے،وہ بُت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے اپنی ہی گائے ہوئے غزل کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے شکار بن کر گلوکارہ بےچاری شکاری کی باتوں میں ایسے آگئی جیسے کہ بہلنے اور پھسلنے کے لیے تیار بیٹھی ہو ۔ عزائم کے حصول کے لیے پہلے شوہر سے علیحدگی ضروری تھی اور جب میاں بیوی میں کوئی ساتھ چھوڑنا چاہے تو علیحدگی کے لیے کوئی خاص ظاہری وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتی ۔ وکیل صاحب نے حالات کے سامنے شکست تسلیم کی اور گلوکارہ بیوی کو اسکا قانونی حق دیتے ہوئے آزاد کرادیا اور یوں 15 سالہ رفاقت کا خاتمہ ہوا ۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: justify; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: justify; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں