203

بحیثیت مسلمان ۔ایک سیاستدان

صد ہائے افسوس کہ ہم مسلمان کدھر جا رہے ہیں۔آج مسلم أمہ کی حالت کو دیکھتے ہوئے ایک عام تعلیم یافتہ انسان جو کہ سیاسی حربوں اور چالوں کو نہیں سمجھتا اور نہ ہی کرپشن کے نت نئے طریقے جانتا ہے۔اخباروں میں اپنے لیڈروں کے حالات پڑھتا ہے کہ جن پر فخر تو کر سکتا ہی نہیں۔یہاں تمام لیڈران کی بات نہیں کرتا کیونکہ میرا ملک قائم ہے تو ضرور اس میں کچھ اچھے کردار بھی موجود ہونگے۔مگر یہ اچھے کردار بھی کب تک اپنے فرائض انجام دیں گے۔ہمیں اپنی اسں سیاسی گراوٹ سے بچنےکیلئے کوئی بند باندھنا ہو گا۔ہم آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک ایک تعلیمی نظام ہی ترتیب نہیں دے سکے کہ جس کی بنیاد پر قومیں تشکیل پاتی ہیں اور نہ ہی احتساب کا کوئی شفاف اور غیر جانبدار سسٹم قائم کرنے میں کامیاب ہو سکے کہ جس پر فخر کر سکیں۔


مسلم عہد کو یاد کرتے ہیں تو مثبت سیاست کے کچھ خدو خال ترتیب پاتے ہیں۔ جہاں بانی اور جہانگیری کے وہ اصول وضع ہوتے ہیں جس سے قومیں اپنا وجود منواتی ہیں اور ترقی کے زینے طے کرتی ہیں۔کڑا احتساب ،فلاحی مملکت اور عزت محفوظ ہے۔ امیر المومنین کو زائد چادر کے حساب کیلئے عوام کی عدالت میں جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔یہ کوئی اور نہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور کی بات یے۔ کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو احتساب سے بچانے کی کوشش کی یا کوئی NRO لیا۔ نہیں اس عظیم ہستی نے اپنے آپ کو احتسابی عمل کے لئے پیش کیا اور چادر کے متعلق بیان دے کر امیر المومنین کے منصب کی عزت رکھی۔

آج کے مسلمان حکمرانوں کے لئے سبق ہے۔مگر ہمارے حکمران اپنے اس سنہری دور کو بھول چکے ہیں اور سیاست صرف اور صرف ایک ایسا شعبہ بن چکا ہے کہ جس کا نام آتے کرپشن، دولت، دھوکہ دہی،اپنے ناجائز اثاثے چھپانا اور اس میدان میں آکر مزید ناجائز اثاثے بنانا اور ملکی معاملات کو نظر انداز کرنا ہے۔

خلفائے راشدین کے ادوار تربیت کی غرض سے ہمارے سیاستدانوں کے زیر مطالعہ رہیں ،ان کے حکومتی انداز کو سمجھیں اور دیکھیں کہ وہ ملکی معاملات کیسے احسن انداز سے چلاتے تھے۔ اس سے ہمارے بہت سے سیاسی، قانونی، ملکی اور بین الاقوامی معاملات بااحسن طریقے سے حل ہوتے چلے جائیں گے۔زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو اس کو سیکھا جاتا ہے۔۔۔۔الیکشن ایک راستہ ضرور ہے حکومتی ایوانوں میں پہنچنے کا مگر اس کے آگے سخت امتحانات ہیں۔معاملہ فہمی کی صلاحیت کے بغیر ایک منتخب عوامی نمائندہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ مگر حکومتی ایوانوں میں جانے کے لئے روپیہ پیسہ، ڈگری اور عوامی رابطہ مہم کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ایک چھوٹی سی ملازمت حاصل کرنے کے لئے ڈگری یافتہ ہونے کے ساتھ کسی ادارے میں کام کا تجربہ ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے تو اس اہم ترین منصب کے لئے کیوں نہیں جس میں نا تجربہ کاری قوموں کو بین الاقوامی طور پر بربادی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک تعلیم و صحت پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں کیونکہ یہی دو شعبے قوموں کی اساس ہیں۔پاکستان 80 کی دہائی میں داخل ہو چکا ہے مگر آج بھی تعلیم و صحت ملک کے ایسے شعبے ہیں جن پر سوالیہ نشان ہے۔ہم آج تک نہ ہی کوئی ٹھوس تعلیمی نظام ترتیب دے سکے ہیں اور نہ ہی صحت و عوامی بہبود کا کوئی مستقل پروگرام وضع کر سکے ہیں۔ملک کا زیادہ وقت سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور ریشہ دوانیوں کی نظر رہا۔کرسی اور طاقت کے حصول کے لئے سازشوں کی تاریخ رقم کی گئی۔ اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوا؟

کسی بھی ملک کیلئے ضروری چیز نظم ونسق کو بہترین اصولوں پر قائم کرنا، عہدوں اور عہدیداروں کا صحیح انتخاب ہے۔ اگر اس کو سامنے رکھ کر وزیر اور مشیر قائم کئے جائیں تو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ورنہ خزانہ اور عوامی ٹیکسوں کی بربادی کے علاوہ کیا حاصل ہوگا؟۔۔ اور یہی کچھ اب تک ہوتا آیا ہے۔ہمیشہ وہ قومیں دنیا میں مقام پاتی ہیں جو عوامی فلاح و بہبود اور صحت و تعلیم کے پروگراموں کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ یہی دو شعبے ہیں جو حکومت وقت کو ایک صحیح راستہ عطا کرتے ہیں ۔ایک ایسا راستہ جو طبقاتی اونچ نیچ سے ماورا ہو تو کوئی شک نہیں کہ قومی ترقی میں کوئی رکاوٹ آئے۔ آج ٹیکنالوجی ہر شعبے میں اپنی جگہ بنا چکی ہے مگر آج تک ہمارے راہنماؤں نے روزگار کے زرائع پیدا نہیں کئے اور ہمارے نوجوان روزگار کی تلاش میں غیر ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ملک میں تعلیمی ابتری اور صحت عامہ کی صورتحال آئے روز اخبارات و جرائد کی زینت رہتے ہیں۔ تعلیم جو کسی بھی معاشرے کی بنیاد کا درجہ رکھتی ہے اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ صحت عامہ کو لیں تو وہاں بھی یہی صورتحال یے لیکن قرض پر قرض اور اس پر سود کی ادائیگی بڑھتی جارہی ہے۔

آبادی میں اضافہ کے ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے اداروں کی تعمیر بھی ضروری ہے۔پاکستان میں کئ سال گزر جاتے ہیں شماریات کا محکمہ آبادی کے اضافے پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور جب الیکشن آتے ہیں تو کام کرنے کا خیال آتا ہے اور تب تک آبادیوں میں ٪25 فیصد اضافہ ہو چکا ہوتا ہے یعنی جو اضافہ ہوا اس کے متعلق کچھ نہیں کیا گیا اور پچھلے اعدادوشمار پر ہی کام چلایا جاتا ہے۔ جو فلاحی نظام اسلام نے ہمیں عطا کیا ہے وہ کسی اور مذہب میں موجود نہیں لیکن دوسری اقوام نے اس کی افادیت کو سمجھا اور اپنا لیا۔ وہ بچے اور بزرگ جو کام نہیں کر سکتے ان کی بنیادی ضروریات حکومت پورا کرتی ہے۔

آج ہمیں اپنے ملک میں نظام تعلیم اور صحت عامہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اسلامی اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ تعلیم، صحت عامہ اور فلاحی ادارے حکومت وقت کی سرپرستی میں ایمانداری سے کام کریں گے تو عوام صحت کے معاملات پر اٹھنے والے اخراجات سے بے فکر ہو کر ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں گے لیکن یہ سب اس وقت ہو گا جب دیانتداری اور ملکی مفاد کو عزیز رکھا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں