216

اس قدر علم و فضل کے مالک۔

پانامہ کا ڈرامہ اپنے اختتامی مراحل تیزی سے طے کر رہا ہے۔ کھیل اب کچھ دن کا ہی رہ گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہوتا ہے؟ آیا کچھ ہوتا بھی ہے یا ہمیشہ کی طرح کچھ نہیں ہوتا۔ ویسے عوام کو شاید اس بات سے غرض ہے بھی نہیں کہ کون نا اہل ہوگا۔ غرض صرف اس سے ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی یا نہیں اور لوٹنے والے کو واقعی وہ سزا ملے گی جو عوام کو ملتی ہے یا نہیں۔ جب ایک چند ہزار کا بل نہ دینے پر، سائیکل چوری کرنے پر، کسی کو چند ہزار یا لاکھ کا چونا لگانے پر عوام کے خلاف جس طرح سزا کا اور رقم واپسی کا عمل ہوتا ہے بالکل اسی طرح اس کیس میں بھی ہوگا یا چند برس کی نا اہلی اور اس نا اہلی کے ساتھ اسی خاندان کے کسی فرد کی بطور وزیر اعظم تعیناتی پر اختتام ہوگا۔

کہا یہ جاتا ہے کہ عوام کے منتخب کردہ فرد کو کوئی اور گھر بھیجے یہ ممکن اور بہتر نہیں۔ کیا خوب منظق ہے۔ گویا اگر انتخاب غلط ہوگیا ہے یا فرد انتخاب کے بعد غلط ہوگیا تو بھی پانچ سال بھگتنا ہی پڑے گا۔ کیا عوام کے ساتھ اس سے بڑا مذاق ہو سکتا ہے؟ ہم ایک طرف تو شخصی آزادی اور اس کے حقوق کے رونے روتے ہیں عوام کی بات کرتے ہیں مگر جب یہی عوام منتخب کردہ گروہ سے تنگ آچکے ہوتے ہیں تو انہیں اس گروہ کے ہٹانے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ جس طرح انتخاب کے لئے انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے کیا اسی طرح ہر سال یا دو سال کے عرصے میں عوام کی رائے حکومت کی کاکردگی پر نہیں لی جا سکتی۔ اداروں میں ہر سال کام کرنے والوں کی سالانہ کارکردگی رپورٹ تیار کی جاتی ہے جس میں ہر شخص کی پورے سال کی کارکردگی پرکھی جاتی ہے۔ کیا ایسا کوئی طریقہ ملک میں رائج نہیں ہوسکتا کہ جس میں حکومت ہر سال اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھ کر ان سے ووٹ کی طلب گار ہو۔ پانچ سال جھیلنا کیا بہت ضروری ہے؟ حکومت ہے یا میڈیکل کی تعلیم کہ پانچ سال سے پہلے مکمل نہیں ہوسکتی۔ یہاں سوال کرنے والے یہ سوال بھی ضرور کریں گے کہ ایسا طریقہ دنیا میں کہاں رائج ہے جو پاکستان میں ضرور کیا جانا چاہیئے۔ تو جناب ایسے حکمران بھی تو دنیا میں کہیں دستیاب نہیں ہیں جو مرنے تک کرسی سے ایسے چمٹے ہوتے ہیں جیسے ان کا جنازہ ہو۔ بقول شاعر

کرسی ہے تمھارا یہ جنازہ تو نہیں ہے۔ 
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے۔ 

اور جہاں تک بات رہی عوام کے انتخاب کی کہ جسے بار بار بنیاد بنا کر کہا جاتا ہے کہ ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے تو عوام کو ہی اختیار ہے کہ ہمیں ہٹائیں تو جناب عوام کے پاس آپ نے اختیار چھوڑا ہی کب ہے؟ آپ تو گویا پانچ سال عوام کے لئے ان کی اولاد بن جاتے ہیں کہ جیسی بھی ہے سنبھالنا پڑے گی۔ اور عوام اگر احتجاج کے لئے اکٹھے ہوتے بھی ہیں تو ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو تحریک انصاف کے کارکنوں اور ماڈل ٹاون پر عوامی تحریک کے کارکنوں کے ساتھ ہوا۔ یہ کیا منطق ہے کہ عوام جب آپ کو جماعتی بنیادوں پر منتخب کر رہے ہیں تو وہی عوام آپ کو ہٹانے کے لئے کسی جماعت کے جھنڈے تلے جمع نہیں ہو سکتے۔ بھئی کیوں نہ ہوں؟ عوام کو اکٹھا ہونے کے لئے کسی جماعت کی ضرورت تو پڑے گی کیوں کہ عوام کا اپنا تو نہ کوئی جھنڈا ہے نہ ڈنڈا، نہ جماعت ہے نہ نعرہ۔ عوام تو بس عوام ہے تمام جماعتوں میں منقسم۔ جو سیاسی طور پر نہیں ہیں وہ مذہبی طور پر ہیں ان کی اسی تقسیم کا فائدہ حکومت کرنے والے گروہ اٹھا جاتے ہیں یا شاید انہوں نے ہی اپنی حکومتوں کے لئے عوام کو تقسیم کیا ہوتا ہے۔ اس کی تحقیق کے لئے بھی ایک جے آئی ٹی کی اشد ضرورت ہے۔

اور سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے حکمران کون سے بقراط، سقراط، افلاطون، ارسطو، لقمان اور خلیل جبران ہیں کہ نہ تو کبھی ان کی کوئی کتاب دیکھی جو کسی موضوع کا احاطہ کرتی ہو اور دنیا کو ان کی قابلیت سے روشناس کروا سکے۔ نہ کوئی ایسی تحقیق جو بند رازوں کو کھولتی ہو۔ نہ کوئی ایسی تقریر جس میں ماضی کی غلطیوں سے سبق اور آئندہ کی منصوبہ بندی ہو۔ نہ کوئی ایسا بیان جس میں ملک کو درپیش مسائل اور ان کا جدید اور فوری حل پیش کیا گیا ہو۔ ما سوائے اس کے کہ سارا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال دیا جائے چاہے پچھلے تیس سالوں سے موصوف خود حکمرانی فرما رہے ہوں۔ آپ ان کی تقاریر، بیانات، مذمتیں، اجلاس، اعلامیہ، بیرون ممالک دورہ (جو ہمیشہ انتہائی اہم بھی ہوتا ہے اور ہمیشہ کامیاب بھی) اٹھا کے دیکھ لیں۔ مکمل مماثلت نظر آئے گی۔ ایک لفظ بھی حرام ہے جو ادھر سے ادھر ہو جائے۔ کاپی پیسٹ کا آپشن شاید کمپیوٹر میں پاکستانی حکمرانوں کی سہولت کے لئے ہی رکھا گیاہے۔

میں آج کل بس بیٹھ کر یہی سوچتا رہتا ہوں کہ کون سی ایسی آسمانی قوت ہے جو ہمارے حکمران طبقے کو اس قدر ممتاز بناتی ہے جو بظاہر کوئی تعلیمی سند نہ رکھتے ہوئے بھی اس قدر علم و فضل کے مالک ہوتے ہیں کہ نہ صرف ہر محکمہ بلکہ ایک ہی وقت میں کئی محکمہ جات چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو چاہیئے کہ زیر تعلیم بچوں کو انگریزوں کی کم علمیت اور قابلیت پڑھانے کے بجائے ہمارے حکمرانوں کی علمیت اور قابلیت سے استفادہ کیا جائے تاکہ وہ بھی بڑے ہو کر ایسے ہی ملک کی خدمت کر سکیں جیسے یہ لوگ آج کر رہے ہیں۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

تعارف: سید علی اکبر عابدی، حیدرآباد پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور سندھ بورڈ آف ریونیو میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں