230

بےضرر اظہارِ مسرت

ہمارے بچپن میں بسنت کا تہوار بہت جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ وہ بسنت اب محض بچپن کی ایک خوبصورت یاد بن کر رہ گئ ہے۔ آنے والی نسل کبھی بہار کی آمد کے اس خوبصورت تہوار کی خوشی اور امنگ کا اندازہ نہیں کر پاۓ گی جسے ہم بسنت کہتے تھے۔ نہ ہی اُس پُر رونق ماحول کا بیان الفاظ میں ممکن ہو سکے گا۔ اب تو جیسے سب خواب ہو گیا۔ وہ پتنگ باز سجنا کہاں کھو گئے۔ وہ بو کاٹا کی آوازیں۔ رنگ برنگی گڈیوں اور پتنگوں سے سجا آسمان۔ گھروں سے آتی روائتی کھانوں کی خوشبو اور چھتوں سے اُٹھتے باربی کیو تکوں کے دھویں۔

سرسوں جیسے پیلے اور ہرے بھرے سبز رنگ کے کپڑوں میں ملبوس خواتین۔ دل کی دھڑکنوں سے کھیلتا لاؤڈ سپیکر پر بجتا میوزک۔ اس موقع پر غیر ملکی سیاحوں کی آمد پاکستان میں سیاحت اور ثقافت کے فروغ کا باعث بھی بنتی تھی۔ کتنے ہی گھروں کے خصوصاً اندرون لاہور میں رہنے والے تاجروں کے روزگار اس تہوار سے وابستہ تھے۔ غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ساتھ، پاکستان کے دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں سے بھی لوگ میلوں کی شکل میں بسنت منانے بڑے شہروں کا رخ کرتے تھے۔ ذرائع نقل و حمل کے استعمال اور بڑے ہوٹلوں میں بسنت کی بکنگ کے باعث بھی اُس زمانے میں معیشت کو فروغ ملتا تھا۔ 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تہوار پیشہ ورانہ رقابت میں اتنا بڑھ گیا کے پھر دھاتی ڈوریں بننے لگیں، جنہیں قاتل ڈوریں کہا جاۓ تو غلط نہ ہو گا۔ شیشے اور خاص کیمیکل دھات سے تیار شدہ یہ ڈور انگلیوں اور ہاتھوں کو مکھن کی طرح کاٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پھر اس قاتل ڈور نے جب اپنی تیزی گردنوں پر دکھانی شروع کی تو کئی گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی اور لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ خوشی منانے کے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے ! کیا ہم خوشی میں بھی دوسروں کے لیے بےضرر ثابت نہیں ہو سکتے! یقیناً غم و غصے میں آپے میں رہنا ہم تبھی سیکھ سکیں گے جب خوشی کے موقعے پر آپے میں رہنا سیکھ جائیں گے۔ 
ہم اپنے بچوں کو دوسروں کے لیے بےضرر ہونا کیوں نہیں سکھاتے؟ دوسروں کے بچوں کی جن باتوں کو ہم بُرا کہتے ہیں اپنے بچوں کو ہم اُن باتوں سے کیوں نہیں روکتے ؟ دوسرے کے بچوں پر بس نہیں چلتا تو اپنے بچوں کو تو سدھار سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کو ایسی چیز خرید کر ہی نہ دیں جس کا استعمال اردگرد والوں کے لیے پریشانی اور تکلف کا باعث ہو۔ میں انٹرنیٹ پر چودہ اگست کے حوالے سے ایک ویڈیو دیکھ رہی تھی۔ جس میں بہت خوبصورت آتش بازی دکھائی گئی تھی۔ مگر اس ویڈیو میں باجوں کا اس قدر شور تھا کہ کچھ دیر میں ہی میں نے ویڈیو بند کر دی۔ چلیے میں تو ویڈیو بند کر سکتی تھی مگر جو لوگ وہاں موجود تھے انہوں نے کیسے اس وحشیانہ ماحول کو برداشت کیا ہوگا۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ہم لوگ یہ بےہنگم شور اور دردِ سر کیوں خرید رہے ہیں ؟ کیوں اس کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جب ضرر رساں چیزوں کی خرید کم ہو گی تو بازار میں چیز کی مانگ کم ہو جائے گی۔
دکاندار کبھی ایسی چیز دکان میں نہیں رکھتا جسے گاہگ مسترد کر چکے ہوں۔ یہ بات بچوں کی تربیت کا حصہ ہونی چاہیے کہ کیسے مہذب معاشرے کے لوگ تمیز و تہذیب کے دائرے میں رہ کر خوشی اور غم مناتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے خوشی کے اظہار کے طریقوں میں وحشت نہیں، وقار اور نظم و ضبط جھلکتا ہے۔ نتیجتاً پُر ہجوم مقامات پر، پُر امن احتجاج ، ماتم اور جشن کے موقعوں پر کوئ ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آتا۔ بلا شبہ نظم و ضبط اور قانون کا احترام ہر حال میں ضروری ہے اور ہمارے اپنے تحفظ کے لیے ہے۔ کبھی تو خبر سننے میں آتی ہے کہ شدید انتباہ کے باوجود لوگ تمام وارننگ سائن کو نظر انداز کرتے ہوئے خوشی کے اظہار کے لیے گہرے پانی میں اترے اور ڈوب گئے۔ کبھی کسی کی خوشی کسی اور گھر میں ماتم بچھا جاتی ہے جب لوگ اندھا دھند ہوائ فائرنگ کرتے ہیں۔ 
بہت سے لوگ خوشی منانے کے اظہار کے لیے موٹر سائیکل سے سائلنسر اتار کر صوتی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ون ویلینگ جیسے بےہودہ اور خطرناک کام کر کے نوجوان اپنی قیمتی جانوں کو داؤ پر لگاتے ہیں۔ چاند رات ہو یا چودہ اگست، گھر سے باہر نکلی خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے اور ان کی جانب ہتک آمیز اور بےہودہ کلمات اچھالے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر پڑوسیوں ،بزرگوں بیماروں اور طالب علموں کا خیال کیے بغیر غیر ضروری طور پر رات رات بھر لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جن محلے والوں کو شادی کی دعوت تک نہیں دی جاتی، انہیں بھی بےوقت راگ سننے پڑتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ لوگ دوسروں کو شریک کیے بغیر ہی اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ کئی گھروں میں تو بارہ ربیع الاول کو اس لیے بھی زیادہ اونچی آواز میں لاؤڈ سپیکر بجایا جاتا ہے کہ پڑوسی لاؤڈ سپیکر کے استعمال اور نمود و نمائش کے خلاف ہے۔ عید میلاد نبی سادگی سے منانے کو کہتا ہے۔ 
کوئی سڑدا اے سڑ جاوے 
کوئی مردا مر جاوے 
سنیاں نے تے گج وج کے میلاد منانا اے
 گویا اللہ پاک اور حضور اکرم ص کی خوشنودی سے زیادہ پڑوسی کو سڑانے اور جلانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کیا ہمارے لیے خوشیاں منانا دوسروں کو تکلیف دیے بغیر ممکن نہیں۔ اسلام میں بھی درمیانی راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، تو کیوں نہ اپنے بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے ہی سکھائیے کہ ہماری کوئی بھی ایسی خوشی یا خوشی منانے کا طریقہ جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے وہ درست نہیں اور ایک مہذب معاشرے میں کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں