214

سگی ریاست اورچار سوتیلے

ناگزیرحالات اور بدترین سازشوں کے باوجود اللہ کے فضل سے ایک بہترین ریاست وجود میں آگئی ۔ لیکن ریاست کے اوپر چار اقسام کے سوتیلے حاوی ہو گئے۔ نمبر ایک ۔ وہ نام نہاد علماء کرام جنہوں نے اسلام کی ترویج برائے نام کی ،عوام کو دینی تعلیم اور دین کی اصل روح سے روشناس کرانے کے بجائے فرقہ بندی اور شدت پسند سوچ کو رواج دیا ۔ یہ لوگ نہ صرف اسلام کے دشمن بلکہ پاکستان کے بھی دشمن بنے رہے ۔ بہ ظاہر محب الوطنی کا پرچار کیا لیکن پس پردہ اپنے ہی نفس سے محبت کی اور شیطان کے راستے پر رہے ۔

دوسرے نمبر پر سیاسی جماعتوں اور انکی قیادت نے بھی اقتدار کے حصول کو ترجیح دی اور اسکی خاطر ملک دشمنی بھی کر ڈالی ، بقول ایک سینئیر صحافی ملک کی ہر سیاسی جماعت میں پڑوسی ملک کے ایجنٹ موجود رہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ تیسرے نمبر پر وہ مذہبی جماعتیں ہیں جو مذہب اور سماج سدھار کے نام پر سیاست کرتی رہیں اور عوام کے لئے یہ سب سے خطرناک ثابت ہوئے کیونکہ اسلامی ریاست کو فلاحی بنانے کے بجائے ایک ایسی ریاست بناد یا گیا جس کے ہر شعبے میں دو گروہ بن گئے ایک مذہبی دوسرا روشن خیال اور ایک ایسا چوں چوں کا مربہ بن گیا جس میں عدم برداشت اور اچھائ پرکھنے کی تمیز بلکل نہیں ہے ۔ 
بس بھیڑ چال ہے ۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مذہبی جماعتیں ملک میں جمہوریت کی پاسداری ۔انصاف ۔ مساوات اور بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے کام کرتیں انہوں نے سماجی و بے بنیاد فروعی مسائل پر بحث اٹھائے رکھی ۔ جیسے کہ دین کی سربلندی۔ حالانکہ دین توویسے ہی سر بلند ہے البتہ ہم نے اسکے سر کو زبردستی نیچا کرنے کی بھرپور جد و جہد کی۔ نام نہاد جہاد کو قوم پر مسلط کروایا جب کہ انیس سو پینسٹھ سے ہی ملک میں لسانی فسادات جاری کروا دیئے گئے تھے آپس میں ہی لڑنے والے لوگ دوسرے ممالک میں جہاد اور اسلام کی سر بلندی کے لئے جاتے رہے جب کہ ملک میں ماروائے عدالت گرفتاریاں اور قتل ہوتے رہے ۔ لوگ لاپتہ ہوتے رہے کسی نے سوال نہیں اٹھایا اب جب کہ آگ گھر تک آگئی تو سوال کئے جا رہے ہیں ۔ خواتین کے لئے تعلیم کا حصول عام کرنا۔ انصاف کی عدم فراہمی ۔ لاقانو نیت ہمارے بنیادی مسلئے ہیں لیکن ان پر کوئ مذہبی جماعت بات نہیں کرتی۔ بے روزگاری کے لئے ایک فلاحی ریاست کیا اقدامات کر سکتی ہے اس پر بھی کسی مذہبی جماعت نے کوئ تجاویز پیش نہیں کیں ۔

چوتھے سوتیلے وہ سو کالڈ لبرلز ہیں جنہوں نے سچا درد دل رکھنے والے حقیقی ترقی پسندوں کی راہ کھوٹی کر دی ۔سچوں کو جلا وطن ہونا پڑا اور یہ سوکالڈ زہر اگلتے قلم اور زبانیں نکالے فعال ہو گئے اگر انکی نیت اچھی ہوتی تو یہ ضرور کامیاب ہوتے ۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں لبرلز کا ساتھ دے سکوں ایک دن یہ سوچتی ہوں ہائے یہ تو دل کی بات لکھ دی یا کہہ دی لیکن دوسرے دن ہی دوسرے کالم میں گھما پھرا کر ایسا زہر اگلا جاتا ہے کہ کہنا پڑتا ہے او کون لوگ ہو تسی۔ کسی ایک کے تو ہو جاو ۔ بلکہ اپنے ہی ہو جاو تو بہتر ہو گا اگر مذہبی جماعتوں اور علماء کرام نے عوام کو درست تعلیم نہیں دی تو روشن خیال اور پڑھے لکھے افراد کا فرض ہے کہ زبان سے حق بات کہیں اور قلم سے سچائی اور علم کی روشنی ہی پھیلائیں لیکن ایسا کہاں سے آئے جو یہ کر سکیں۔ ہائے تم چاروں سوتیلوں نے قوم کو ڈبونے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

رہے ہم عوام تو سوشل میڈیا کے توسط سے اتنا ہی کہوں گی کہ اقراء یعنی پڑھیئے اور سوتیلوں کے مذموم مقاصد کو ناکام کیجئے ۔ اپنے بچوں کو اتنا پڑھا دیجئے کہ کسی قادیانی کو یا کسی مشرک کو ملک میں بلا کر عہدہ نہ دینا پڑے ۔آجکل یہی بحث ہے نہ۔ یہ بحث کرنے کی نوبت نہ آتی ،اگر ہم سمجھداری سے اپنے تعلیمی اداروں پر توجہ دیتے اپنے ملک میں ہی بہت قابل لوگ ہیں انکی خدمات سے استفادہ کرنے کی اہلیت رکھتے ، لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے ، ملک میں گوہر نایاب موجود ہیں بس ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی جاسکتی ہےآئندہ آنے والی حکومت میں انکی شمولیت یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ پاکستان زندہ باد

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں