278

میں عورت ہوں، میں حسین ہوں

ربّ زوالجلال کی ان گنت تخلیقات اور بے شمار نعمتوں میں سب سے خوبصورت تخلیق اور نعمت عورت کا وجود ہے۔ ایک لمحے کو اس حسین و جمیل کائنات میں سے عورت کا وجود حذف کر کہ دیکھئے ، رنگ، خوشبو، چاشنی، زندگی سب یک لخت غائب ہو جائیں گے۔ اس کائنات کے رب نے ذرہ ذرہ تخلیق کیا، سورج، چاند، ستارے، سیارے، پہاڑ، میدان، نہریں، ندیاں، سمندر، صحراء، سب بنا ڈالے۔ ان سب کو سراہنے والا انسان بھی تخلیق کر لیا، پر ابھی تخلیقات میں کہیں تشنگی سی باقی تھی۔ وسیع و عریض کائنات میں تنہائیاں اور ویرانیاں دکھتی تھیں۔ آوازیں تھیں، نغمگی نہ تھی۔ پھول تھے، خوشبو نہ تھی۔ رنگ تھے ، رنگینی نہ تھی ۔ روشنی تو پیدا ہو گئی ، رعنائی نہ تھی۔ وجودِ انسان تو مٹی سے اُٹھ گیاپر زندگی جینے کی لذّت معدوم تھی۔

پھر رب نے ایک اور 146کُن 145 کہا۔ اور اب کی بار ایسا وجود تخلیق ہوا کہ جنّت ہری بھری ہو گئی۔ پرندے چہچہانے لگے، پھول کھلنے لگے، دریائوں میں ترّنم آگیا۔ وادیوں میں بہاریں اُتر آئیں۔ صحراء میں حسن در آیا۔ سورج، چاند، ستارے سیارے سب چمکنے لگے۔ اب کی بار تخلیق ہوا ؑعورت کا وجود۔اور کہانی شروع ہوئی چاہتوں کی،۔۔۔محبت کی۔ دل کی دھڑکن سُنائی دینے لگی۔ آنکھیں باتیں کرنے لگیں۔ جسم سے لے کر روح تک میں احساس اتر آیا۔ جذبات نے انگڑائی لی۔ لذتوں نے آہ بھری۔ درد پیدا ہوا۔ آنسوئوں کا جنم ہوا۔

میں ایک عورت ہوں ۔ میرے اندر رعنائیاں ہی رعنائیاں ہیں، رنگ ہی رنگ، جذبے ہی جذبے ہیں۔میری آنکھوں میں امید کے دیئے روشن ہیں جو کسی بھی پر عزم کو منزل دکھا سکتے ہیں اور کسی بھی مایوس کی دنیا روشن کر سکتے ہیں۔ میرے حوصلوں کے رتھ پہ سوار بڑے بڑے نامی میدانِ جنگ سے فتحیا ب لوٹتے ہیں۔ اور یہی سردار اگر کسی کے آگے گھٹنے ٹیکا کرتے ہیں تو وہ میں ہوں، یہ افتخارمجھے حاصل ہے۔ میں نہ چاہوں تو کوئی ہرکیولیز، کوئی دارا مجھے کبھی فتح نہ کر پائے۔میں وہ مخلوق کہ جو وحشتوں کو خود میں سمیٹ کر وحشیہ کہلاتی ہے مگر اس روپ میں بھی صرف پیار ہی لٹاتی ہے۔


میرا وجود خوشبو ہے، بے حد معطّر جنّت کے باغوں جیسا۔ میں ایک ماں ہوں۔ یہ تفاخر، خالقِ کائنات کے بعد صرف مجھے ملا ہے۔ رب کی تخلیقات میں سے پہلا اور منفرد اعزاز۔ میری کوکھ سے نگینے بھی جنم لیتے ہیں اور عجائبات بھی مگر سب تخلیقات سے یکساں محبت کا رمز بس میں جانوں یا خدا جانے۔

میں ایک مضبوط قلعہ ہوں۔ جس کی بلند اور دبیز دیوار کے حصار میں نسلیں سکون کی نیند سویا کرتی ہیں۔ ہوشرباء طلسم کی کہانیاں میرے سینے میں راز کی طرح پنپتی ہیں اور چاندنی راتوں میں سرگوشیاں بن کر معصوم آنکھوں میں اتر جاتی ہیں۔ میری لوریاں ،بے چینیوں کو تھپک کر سُلا دینے کا ہنر جانتی ہیں۔ 


ممتا کی اُجلی ردا تانے ، باگاہِ الہی میں، میں جس قدر جھکتی ہوں، میرے خاندان کا وقار اُتنا ہی بلند ہوا جاتا ہے۔ میں مجاہدوں اور شہیدوں کی ماں بن کر اپنے فرزندوں کو وہ قّوت عطا کرتی ہوں کہ وہ موت کی کاری ضرب کو بھی مسکرا کے جھیل جائیں ۔ جدایئیوں پہ صبر کروں تو رّبِ ذوالجلال اُس صبر کو بھی صبرِ جمیل قرار دے دے۔ میں ہی ذی روح کے جنم سے پہلے کی پناہ گاہ ۔۔میں ہی آخرت میں پکار کا نقّارہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں